• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دیارِ غیر میں مجھے ہر روز وطن عزیز سے ڈھیروں ای میلز اور خطوط موصول ہوتے ہیں ، جن میں یہ رونا رویاجاتا ہے کہ میرے جانے سے پاکستان کی سیاست میں بہت بڑا خلا پید ا ہو گیا ہے۔کئی لوگ تو فرطِ جذبات میں اس خلا کو ”بیت الخلا“ بھی لکھ دیتے ہیں۔ بہت سے جذباتی نوجوان اپنے ان پیغامات میں مجھے یقین دلاتے ہیں کہ وہ میری پارٹی کے پُرجوش کارکن ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنی نیم خواندگی کی بنا پر ”اے پی ایم ایل“ کو ”آل پاکپتن مسلم لیگ“ کا مخفف سمجھتے ہیں ۔ مجھے وطن کی سڑکوں پر رواں ٹرکوں کی تصاویر بھی بھیجی جاتی ہیں جن کے پیچھے میری تصویر کے ساتھ لکھا ہوتا ہے ”تیری یاد آئی، تیرے جانے کے بعد“ کئی پینٹرز جذبات سے مغلوب ہوکر ”تیری یاد بھی نہ آئی ،تیرے جانے کے بعد“ بھی لکھ دیتے ہیں ۔ خیر کوئی بات نہیں، مجھے پوری طرح ادراک ہے کہ قوم میری ولولہ انگیز قیادت سے محرومی کو شدت سے محسوس کر رہی ہے۔ تاہم یہ آگ یکطرفہ نہیں، دونوں طرف برابر لگی ہوئی ہے۔ میرے دل میں بھی واپس آ کر قوم کی قیادت کا جذبہ جنوں بے قابو ہو رہا ہے، سو میں نے نگران حکومت بننے کے بعد وطن واپسی کا اعلان کردیا ہے لیکن میرا یہ فیصلہ حتمی نہیں کیوں کہ میری واپسی کی راہ میں کچھ ناہنجار قسم کی رکاوٹیں حائل ہیں ۔ ہمارے دیس میں عدالتیں اور جیلیں بھگتنا بلڈی سویلین سیاستدانوں کا خاصہ ہے، جرنیلوں کا نہیں۔
اپنے نام آنے والے یہ نامے دیکھ کر سوچتا ہوں کہ عجیب ہنگامہ پسند اور تماشا خو قوم ہے ۔ اس کے شوقِ جمہوریت کا جواب ہے، نہ ذوقِ آمریت کا ۔ اس پارہ صفت مخلوق نے ایوب خان کو ہار بھی پہنائے اور پھر ہر طرف کتا ، کتا بھی ہو گئی۔ شہید بہاولپور نے بھٹو کو پھانسی چڑھایا تب بھی حلوے اور جہاز فضا میں ”پھٹ“ گیا تو بھی حلوے ۔ میں نے 35ہزار فٹ کی بلندی سے جمہوریت کو بے آبرو کیا تب بھی مٹھائیاں اور اسی جمہوریت نے مجھے قصرِ صدارت سے بے دخل کیا تو بھی مٹھائیاں ۔ کبھی یہ آئین کی آبروریزی پر جشن مناتے ہیں اور کبھی اس کی بحالی کے لئے سڑکوں پر لاٹھیاں اور گولیاں کھاتے ہیں ۔ یہ لوگ آمریت کے جوتے کھا کھا کر تھکتے ہیں تو جمہوریت کے پیاز مانگنے لگتے ہیں اور جب وہ کڑوے لگتے ہیں تو آمریت کے لِتر یاد کرتے ہیں ۔ آمرانہ ادوار میں جمہوریت کیلئے ماہی بے آب کی طرح تڑپتے ہیں اور جب جمہوریت جلوہ افروز ہوتی ہے تو فوج کو ”دعوت گناہ “ دینے لگتے ہیں ۔ ان کو زیادہ نچوڑا جائے تو پھٹنے پر آ جاتے ہیں مگر ان کے سامنے مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے جذباتی وعدے اور سیاسی مخالفین کو چند گالیاں دی جائیں تو سب کچھ بھول کر ”آوے ای آوے “ اور ”ساڈا شیر اے “ برانڈ نعرے لگانے شروع کر دیتے ہیں۔ بہرحال! اس قوم کی تمام تر قلابازیوں کے باوجود میں اسے اپنی عظیم قیادت سے محروم کر کے یتیم کرنا نہیں چاہتا کیونکہ تاریخ مصر ہے کہ جیسے میں نے لیلائے وطن کے گیسو سنوارے،کسی اور کے ہاتھ ایسا کنگھا نہ لگ سکا۔
میں نے پختہ عزم کر رکھا ہے کہ دوبارہ اقتدار میں آکر ہر گز وہ غلطیاں نہ دہراﺅں گا ،جن کا خمیازہ میں نے پچھلی دفعہ بھگتا۔ یہ داستان بھی بڑی دلچسپ ہے ۔ میں اکثر رات گئے سکوت کی گھڑیوں میں اقتدار کی بہار آفریں رُت کی تلخ و شیریں یادیں اپنی تنہائی کے ساتھ شیئر کرتے ہوئے عدم کو داد دیتا ہوں کہ جس نے کہا ”مدرسہ بلبلہ ہے پانی کا ! میکدہ حوض ہے معانی کا!“ اسی حوض میں غوطہ زن سوچتا ہوں کہ اقتدار کی ویاگرا بھی کیا ظالم شے ہے کہ بصارت و بصیرت کا ستیاناس ہونا جس کے مسلمہ سائیڈ افیکٹس ہیں ۔ لیلائے اقتدار کے عشق میں میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ دستر خوانی برادری کے پیشہ ور باراتی جو دو نمبر طریقے سے اقتدار میںآنے والے ہر شخص کی راہ میں سرخ قالین بچھانے کو بے چین رہتے ہیں، میری آنکھیں اور کان بن گئے۔ وطن عزیز کے بازارِ سیاست میں ویسے تو ان کھوٹے سکّوں کی کوئی خاص وقعت نہیں مگر غیر آئینی صاحب اقتدار کو یہ ریزگاری بڑی کام آتی ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ وقت بدلتے ہی ان کے دیدوں کا پانی خشک ہو جاتا ہے۔ شکم پرستی اور ہاضمے میں ان کا جواب نہیں تو شخصیت پرستی اور طوطا چشمی میں بھی ان کا ثانی نہیں۔ میرے یہ رنگارنگ رفقاءاقتدار کی لذتیں سمیٹتے رہے اور میر ی اندھی وکالت کر کے میری خوشنودی طبع کا ساماں کرتے رہے۔ کئی طوطی ہزار داستاں مجھے مقبول ترین حکمران ثابت کرنے کے لئے زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہے، لیکن برا وقت آتے ہی ان کی چالبازیاں ،طوطا چشمیاں ،ابن الوقتیاں اور بے وفائیاں دیکھ کر میں چکرا کر رہ گیا۔ ان کی فنکاری کی ایک دلچسپ مثال یہ ہے کہ جب میں نے اُستاد حامد علی خان کی آواز میں آواز ملائی ” لاگی رے تو سے لاگی، نجرسیاں لاگی“....تو ان نابغوں نے مجھے ” سُر کا بھگوان“ اور ”موسیقی کا بے وردی بادشاہ“ جیسے القابات سے نوازتے ہوئے مجھے حامد علی خان سے بڑا گلوکار قرار دیا۔ میں حیران تھا کہ خود مجھ سے میری یہ صلاحیت کیوں کر مخفی رہی؟ پھر جب میں نے اسی زعم میں یہاں لندن آنے کے بعد ایک تقریب میں یہی گیت گایا تو میں نے دیکھا کہ پہلی رو میں بیٹھے ایک صاحب مسلسل رو رہے ہیں ۔ میں گاناختم کر کے خوشی خوشی ان کے قریب آیا اور ازراہِ ہمدردی انہیں دلاسا دیا کہ ”صبر کریں بھائی صاحب ! دراصل آپ کی بھی غلطی نہیں ،ایک تو میری آواز میں بلا کا درد و سوز ہے اور ....“ وہ میری بات کاٹ کر بولے ”نہیں بھائی صاحب ! یہ بات نہیں ، دراصل میں موسیقار ہوں ، موسیقی کی پرکھ رکھتا ہوں ....اس لئے روتا رہا“۔ یہاں اکثر لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں نے اتنا اچھا طبلہ بجانا کہاں سے سیکھا؟ میں ہنس کر جواب دیتا ہوں کہ آٹھ سال تک طبلچیوں میں گھِرا رہا ہوں، سو مجھ سے بہتر کون طبلہ بجا سکتا ہے؟
ایسی ہی بہت سی حقیقتیں جو مجھے قصرِ صدارت کے ایام رفتہ میں سمجھ نہ آ سکیں، اب جب شام کو عدم کے ”حوض“ میں آ بیٹھتا ہوں اور سوچ کے دھارے مثبت سمت میں مڑنا شروع ہوتے ہیں تو سارے عقدے وا ہوتے چلے جاتے ہیں ۔رنج و مسرت کی ملی جلی انہی کیفیات میں یادوں کے جنگل میں بھٹکتے ہوئے دور نکل جاتا ہوں ۔ ایسے میں کبھی بیگم صاحبہ اچانک مخل ہوتی ہیں تو یادوں کا سلسلہ یوں ٹوٹ جاتا ہے جیسے کسی نے 58-2/Bکے تحت اسمبلی توڑ دی ہو۔ ایک دن انہوں نے مجھ سے پوچھا” آپ اکیلے بیٹھ کر کیا سوچتے رہتے ہیں ؟ “ میں نے کہا” ملک کے بہتر مستقبل کا سوچتا ہوں“ بیگم صاحبہ کوشش کے باوجود ہنسی ضبط نہ کر سکیں ، طنزاً بولیں ”ملک کے شاندار مستقبل کا ”سنگ بے بنیاد“ تو آپ نے 12اکتوبر1999ءکو رکھ دیا تھا، اب مزید کون سی کسر باقی رہ گئی ہے؟ “....میری زبان کنگ ہو گئی ۔ میں نے سوچا کہ اس قوم کو اُلو بنانا جتنا آسان ہے ، بیگمات کو بنانا اتنا ہی مشکل کام ہے۔
تازہ ترین