سب سے پہلے میں آپ سب کو سال ِ نو کی مبارکباد دینا چاہوں گا، امید کرتا ہوں کہ نیا سال ہم سب کی زندگیوں میں خوشیاں، امن اور برکت لے کر آئے۔ گزشتہ سال 2019بھی پاکستان کے اندرونی استحکام، علاقائی سلامتی اور عالمی امن کیلئے ایک اہم سال تھا، تاہم امریکہ کی جانب سے سال کے اختتام پر مذہبی آزادی کے حوالے سے جاری کردہ رپورٹ میں پاکستان سمیت کچھ ممالک کو ٹارگٹ بنایا گیاہے۔
جبکہ پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی اس رپورٹ کو یکطرفہ اور غیر منصفانہ قرار دے کر مسترد کردیا ہے ۔اس رپورٹ میں امریکہ کی جانب سے پاکستانی اقلیتی غیرمسلم کمیونٹی کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے حکومت ِ پاکستان پر زور دیا گیا ہے کہ 19جون 2014ء کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت مینارٹیز کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے۔سال نو کے موقع پر جاری کردہ اس امریکی رپورٹ نے مجھے ماضی کے دریچوں میں جھانکنے پر مجبور کردیا،
میری آنکھوں کے سامنے چھ سات سال قبل کے مناظر گھومنے لگے ہیں جب پشاور میں واقع ایک گرجاگھر پر شدت پسندوں کے حملے کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جناب تصدق حسین جیلانی نے ازخود نوٹس لیا تھا،انہوں نے محب وطن اقلیتوں کے جان و مال اور حقوق کاتحفظ یقینی بنانے کیلئے جسٹس شاہ عظمت سعید اور جسٹس مشیر عالم سمیت تین رکنی بینچ تشکیل دیا تھا،سپریم کورٹ نے مجھے بھی بطور سرپرست اعلیٰ پاکستان ہندوکونسل اور قومی اسمبلی میں اقلیتی رکن مدعو کیا ،
میں اپنی تمام تر سیاسی و سماجی مصروفیات اور سیکورٹی خدشات کے باوجودجناب چیف جسٹس کے روبرو پیش ہوتا رہا، میرا موقف تھا کہ کسی بھی مذہب کی بے حرمتی کرنے والے پر بلاسفیمی لاء (توہین مذہب قوانین) نافذ کئے جائیں، اسی طرح میں نے سوشل میڈیا اور نصاب تعلیم میں موجود قابل اعتراض مواد کی موجودگی کی نشاندہی کرتے ہوئے جبری مذہب تبدیلی،کم عمری کی شادی، اغواء اور مندروں پر حملے جیسے سنگین سماجی جرائم سے بھی عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا۔
آخرکار 19جون 2014ء کا وہ تاریخی دن بھی آگیا جب سپریم کورٹ نے تمام حقائق کا بغور جائزہ لینے کے بعد اپنا تفصیلی فیصلہ سنا دیا، سپریم کورٹ نے میرے موقف کی تائید کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو حکم جاری کیا تھا کہ ملک میں بسنے والی اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کے لئے خصوصی پولیس ٹاسک فورس تیار کی جائے،
اسی طرح آئین میں درج اقلیتوں کے حقوق پر عمل درآمد یقینی بنانے کا حکم دیا گیا،جناب چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اپنے فیصلے میں ملک میں مذہبی رواداری کو فروغ دینے کیلئے ملک بھر کے تعلیمی نصاب اور سوشل میڈیا کو قابل اعتراض مواد سے پاک کرنے کا بھی حکم جاری کیا۔
سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلے کو اب 6سال ہونے کو آئے ہیںلیکن زمینی حقائق بتلاتے ہیں کہ یہ فیصلہ تاحال عملی طور پر نفاذ ہونے کا منتظر ہے۔سال 2019 کے آخری دن مجھے لاہور میں واقع مایہ ناز تعلیمی ادارے میں لیکچر دینے کیلئے مدعو کیا گیا،
حاضرین کا اس امر پر اتفاق تھا کہ پاکستان کا قیام برصغیر میں بسنے والی مسلمان اقلیتی آبادی کو استحصال سے محفوظ رکھنے کیلئے عمل میں لایا گیا، قائداعظم سمیت تحریک پاکستان کے ہمارے بڑے پاکستان کو دنیا بھر کے سامنے مذہبی آزادی کے حوالے سے ایسا رول ماڈل ملک بنانا چاہتے تھے جہاں اقلیت اکثریت کی تفریق سے بالاتر ہوکر سب شہری ملکی ترقی و خوشحالی میں اپنا حصہ ڈالیں،
پاکستان کی نظریاتی اساس کا تحفظ ہر مسلمان اور غیرمسلم شہری پر فرض ہے۔
افسوس! ہم قیام پاکستان کے اقلیتوں کے تحفظ کے اصل مقصد سے دور ہوتے جارہے ہیں، ہمارے درمیان موجود چند شدت پسند عناصر کی ناپسندیدہ حرکات امریکہ سمیت عالمی برادری کو یہ جواز فراہم کرتی ہیں کہ وہ پاکستان کو مذہبی آزادی کے حوالے سے نشانہ بنائے،
قومی متروکہ وقف املاک ادارہ خالصتاََ ہندو اور سکھ باشندوں کی تعمیرات اور جائیداد کی دیکھ بھال کیلئے قائم کیا گیا تھا، لیاقت نہرو معاہدے کے تحت بھارت میں ہمیشہ مقامی مسلمان وزیر وقف املاک کی دیکھ بھال کا فریضہ اداکرتا ہے، اسرائیل تک میں مسلمانوں کے وقف مقامات کی نگہبانی مسلمان شہری کے حوالے ہے۔ آخرپاکستان میں ہمیں قابل ہندو چیئرمین قومی متروکہ وقف املاک ادارے کی سربراہی کیلئے کیوں نہیں ملتا ،
یہی وجہ ہے کہ آج اس ادارے کے تحت1800 مندر گوردواروں میں سے صرف پچاس فعال ہیںجبکہ ساڑھے سترہ سو پر قبضہ برقرار ہے ۔ گزشتہ برس سپریم کورٹ کے تحت شعیب سڈل کی سربراہی میں 19جون کے تاریخی فیصلے پر نفاذ کیلئے ایک کمیشن بنایا گیا جس کا ممبرمجھے اور ایڈوکیٹ ثاقب جیلانی کونامزد کیا گیا،
افسوس کا مقام ہے کہ وزارتِ مذہبی ہم آہنگی کی جانب سے سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود دفتر تک فراہم نہیں کیاجاسکا ہے، اسی طرح سپریم کورٹ نے ٹیرئی میں واقع ہندو مندر کی بحالی کا حکم دیا تو قومی متروکہ وقف املاک بورڈ عملدرآمد کرانے میں ناکام ہوگیا،
جس پر پاکستان ہندوکونسل کو آگے بڑھ کر مندربازیاب کرانا پڑا ، اسی طرح گھوٹکی میں تیرہ سالہ بچے کی شکایت پر ایک ہندو پرنسپل نوتن لال جیل میںبند ہے جبکہ مندر توڑنے والے شرپسند آزاد دندناتے پھر رہے ہیں ۔ یہ وہ چند تلخ حقائق ہیں جو امریکہ سمیت عالمی برادری کو جواز فراہم کرتے ہیں کہ وہ ہمارے پیارے وطن پاکستان کے بارے میں ایسی رپورٹس جاری کریں،
میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنی کوتاہیوں سے سبق حاصل کرنا چاہئے اورکسی بھی رپورٹ کو اپنی غلطیاں دور کرنے کاباعث بنانا چاہئے۔ سال ِ نو کے موقع پر میرا تمام ہم وطنوں بالخصوص اعلیٰ قیادت کو یہی پیغام ہے کہ غلطیوں سے سبق حاصل کرنے والی قومیں ہی ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھتی ہیں،
ہمیں تندی باد مخالف سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ اپنی کمزوریوں پر قابو پاکر اُڑان کو اونچا کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ ہیپی نیو ایئر!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)