کراچی(جنگ نیوز)جیو نیوز کے پروگرام ”نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے ن لیگ کے رہنما خرم دستگیر نے کہا کہ غالب امکان یہی ہے کہ ن لیگ ترمیمی بل کی حمایت کرے گی، یہ بہت بڑی بات ہے کہ عسکری اداروں کو چلانے میں پارلیمان کا کردار کاغذ پر آرہا ہے،یہاں صرف جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع یا وزیراعظم عمران خان کا معاملہ نہیں ہے، یہ قانون سازی آنے والے تمام آرمی چیفس اور وزرائے اعظم کیلئے ہو رہی ہے،اس معاملہ کو ذاتی فائدے یا نقصان سے ہٹ کر دیکھنا ہوگا۔پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے کہا کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر بھی حکومت نے کنفیوژن کا مظاہرہ کیا،عدالت نے قانون سازی کیلئے چھ ماہ کا وقت دیا لیکن حکومت نے عجلت کا مظاہرہ کیا، عمران خا ن کی یہ بات درست نہیں کہ اس عمل پر اتفاق رائے ہوگیا ہے۔وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر کسی سیاسی جماعت کی انتہائی پوزیشن نہیں تھی، ہندوستان کے عزائم دیکھتے ہوئے ایسا نہیں ہوسکتا کہ سیاسی قیادت آنکھیں بند کر کے ایک دوسرے سے لڑتی رہے، آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر حکومت اور اپوزیشن کی متفقہ سوچ کو سراہا جانا چاہئے۔ خرم دستگیر نے کہا کہ قومی اسمبلی آرمی چیف کی تقرری اور توسیع سے متعلق قانونی طور پر وزیراعظم کو بااختیار بنانے جارہی ہے ترمیمی بل کے ذریعہ آرمی چیف کے اختیارات نہیں بڑھے بلکہ وزیراعظم کے اختیارات تحریر میں آرہے ہیں، آنے والے تمام وزرائے اعظم کی اتھارٹی اب پارلیمان کے ذریعہ تحریر میں آگئی ہے،پارلیمان میں قانون سازی کے بعد عدالتیں بھی اس پر اپنی رائے دیں گی، وہ معاملہ جو ایک بند ڈبے میں تھا وہ کھلا ہے جس پر اب بحث ہوگی، وزیرقانون سے کہا ہے کہ وہ قانون سازی جو عدلیہ کے حکم پر ہورہی ہے اس میں یہ شق کیسے ڈالی جاسکتی ہے کہ کوئی عدالت اس کا نوٹس نہیں لے سکتی، حکومت نے ترمیمی بل میں بعض جگہ پر گمبھیر غلطیاں کی ہیں جو عدالت میں سامنے آئیں گی نواز شریف کی اصول پسندی اور پی ٹی آئی حکومت کی نالائقی کی وجہ سے ہم نے سول ملٹری تناؤ میں کمی کیلئے قدم آگے بڑھایا، اس میں ایک پرویز مشرف کیخلاف آئین شکنی کیس میں فیصلہ ہے، حکومت کی نالائقی سے پہلی دفعہ عسکری اداروں خصوصاً حساس ترین عسکری عہدے کے معاملہ پر قانون سازی پارلیمنٹ میں آئی حکومت سول اور عسکری اداروں کے جس ایک صفحہ پر ہونے کا دعویٰ کرتی تھی اس کی نالائقی سے وہ صفحہ پھٹ گیا ہے،حکومت میں اہلیت ہوتی تو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ عدالت میں نہ جاتا، حکومت کے عقلمندوں نے اس پر جو کاغذی کارروائی کی تھی عدلیہ نے اس کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔