ڈاکٹر ہوں یا وکیل، میں ہوں یا آپ، رُک کر سوچنا تو بنتا ہے کہ دِن میں پانچ بار ہماری آبادیاں ’’حیّ علی الفلاح‘‘ (آئو تم فلاح کی طرف) کی صدا سے گونج اٹھتی ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ خدا ہر جگہ موجود ہے۔ شیعہ، سنی، سلفی، دیوبندی، بریلوی بھلے ایک دوسرے کی مسجد میں نماز نہ پڑھیں، لیکن سجدہ ایک ہی خدا کو کرتے ہیں۔ زبان سے اقرار کرتے اور دل سے یقین رکھتے ہیں کہ خدا ہر جگہ موجود ہے۔ وہ سب کچھ دیکھ رہا، سب کچھ سن رہا ہے اور دلوں کے بھید بھی خوب جانتا ہے۔ پھر یہ بھول کر، کسی کے اشتعال دلانے پر جو ہم کرتے ہیں وہ کیسے کر سکتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ڈاکٹروں اور وکلا کے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے سامنے تصادم کی کچھ وڈیوز دیکھیں۔ بات پرانی ہونے کے باوجود بھول نہیں رہی، اِس لئے لکھ رہی ہوں۔ ڈاکٹروں اور وکلا کا بھونڈے طریقے سے تمسخر اُڑاتے ہوئے اور قہقہے لگاتے ہوئے، کہیں خود سے یہ سوال نہیں کہ ہم سے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی تو نہیں ہوئی؟ دوسری طرف وکلا سڑکوں پر ڈاکٹروں کو گالیاں سناتے ہوئے، وکلا کے اس سمندر میں ایک شخص کے الفاظ بھلائے نہیں بھولتے ’’ڈاکٹر! تیری بہن...‘‘ بار بار یہ وڈیو دیکھی، دیکھنے اور سننے کے باوجود یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ ہمارے اپنے بچے، بھائی اور بزرگ ہیں۔ یہ وہی سرزمین ہے جہاں ایک عورت کی پکار پر محمد بن قاسم اُس کی دادرسی کو چلا آیا تھا۔ جھگڑا ڈاکٹروں اور وکیلوں کا، بیچ میں یہ بہن کہاں سے آ گئی۔ کسی نے اُس شخص کو روکا کیوں نہیں۔ انتظامیہ، ڈاکٹر، وکیل سب اُمہ کی اکائیاں ہیں جنہیں یہ عقیدہ جوڑ رہا ہے کہ رب العالمین ہر جگہ موجود ہے، سب دیکھ رہا ہے، سن رہا ہے۔ ذہن میں بار بار یہ سوال آتا ہے کیا اس وکیل کو جو یہ نعرہ لگا رہا تھا، واقعی یہ یقین ہے کہ خدا سن رہا ہے، اگر یقین ہو تو کیا ایسے نعرے لگا سکتے ہیں۔
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
ہم غیرمسلموں کو الزام دیتے ہیں کہ وہ اسلام کی صحیح تصویر پیش نہیں کرتے، درست، لیکن جو تصویر ہم پیش کر رہے اور پیش کرنے کی اجازت دے رہے ہیں، وہ صحیح تصویر ہے؟ پہلے رونا یہ تھا کہ ہم علاقائی اور لسانی گروہ بندی کا شکار ہیں، اب پیشوں کے حساب سے گروہ بندی؟ قومیں کیا ایسے بنتی ہیں؟
میرا خیال تھا کہ ہمارا مسئلہ غربت اور جہالت ہے، پر نہیں، جس شخص کے منہ سے یہ لفظ نکلے وہ ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں، جن کو اپنی میز پر رکھا کھانا پسند نہ ہو تو آن لائن آرڈر کرتے ہیں، آدھا کھاتے ہیں اور آدھا پھینک دیتے ہیں۔ وہ شخص غربت اور جہالت دونوں سے دور تھا، پھر ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ حکمران ہوں یا عوام، ظالم ہو یا مظلوم، بینا یا نابینا، آکسفورڈ سے پڑھا ہوا یا مدرسے کا، استاد ہو یا شاگرد، وکیل ہو یا ملزم، ہماری بات صحیح ہو یا غلط، ان کو منوانے کے لئے ہم قانون کو توڑتے ہیں۔ دھرنا احتجاج، سڑکوں کو بند کرنا، توڑ پھوڑ کرکے دوسروں کی زندگی حرام کرنا ہی واحد راستہ بچا ہے۔ ہمیں اپنی بات پُرامن طریقے سے کہنے کا سلیقہ ہے نہ سننے کا یارا۔ آخر کیوں ہم اپنے افعال کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہوتے؟
وکیلوں کے حوالے سے معاملہ گمبھیر اس لئے ہے کہ کسی کے ساتھ ناانصافی ہو تو وہ وکیل کے پاس بھاگتا ہے مگر وکیلوں کے عمل نے تو یہ ثابت کر دیا انہیں خود یقین نہیں کہ قانون اور عدالت انصاف فراہم کر سکتی ہے۔ انصاف تو صرف سڑکوں پر ملتا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اس حادثہ میں ملوث وکلا اپنا اپنا مقدمہ خود لڑیں جو براہِ راست نشر کیا جائے۔ عوام بھی دیکھیں کہ انصاف کیا ہوتا ہے اور کیسے ہوتا ہے مگر ہماری سالمیت اس بات کی متقاضی ہے کہ اپنے غلط رویوں کی تاویلیں دینے کے بجائے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا سیکھیں۔ ایک دوسرے پر الزام دھرنے کے بجائے غیر جانبداری، دیانتداری اور خدا کو حاضر و ناظر جان کر حالات کا تجزیہ کریں۔ ہم ایک دوسرے کے بغیر نہیں جی سکتے۔
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں