• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرشنگ سیزن کے آتے ہی گنے کی قیمت کے تعین پر مل مالکان اور کاشتکاروں میں پیدا ہونے والا تنازع کوئی نئی بات نہیں۔ پنجاب حکومت کے موجودہ سیزن کے حوالے سے گنے کی قیمتِ خرید میں دس روپے اضافے کے فیصلے کے بعد مل مالکان نے گزشتہ ماہ دسمبر کے آغاز میں گنے کی خریداری بند کر دی تھی۔ حکومت کی مداخلت کے بعد ملوں کو کھول دیا گیا تھا لیکن گنے کی خریداری بند رہی۔ کسانوں کے بڑھتے ہوئے احتجاج پر گزشتہ ہفتے ملوں کے گیٹ کھول دیے گئے اور کہا گیا کہ گنے کی خریداری جلد شروع کر دی جائے گی لیکن تاحال کرشنگ بند ہے، جس سے کاشتکار شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔ اس صورت حال کے پیچھے مل مالکان کی یہ حکمت عملی بتائی جا رہی ہے کہ جب تک کاشتکار گنا 190روپے فی من فروخت نہیں کرتے، ملیں نہیں کھولی جائیں گی۔ جس کی وجہ سے کاشتکاروں نے احتجاجی دھرنوں کا سلسلہ پورے صوبے میں پھیلانے کا اعلان کیا ہے۔ ماضی میں درپیش ایسے حالات کے نتیجے میں کبھی گنے اور کبھی چینی کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی، ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا اور قیمتیں بڑھیں، ذخیرہ اندوزوں نے موقع سے خوب فائدہ اٹھایا، عوام الناس کی پریشانی الگ، یہاں تک کہ بعض مواقع پر چینی باہر سے منگوانا پڑی۔ اب یہ صورت حال دوبارہ پیدا نہیں ہونی چاہئے کیونکہ اس کا نقصان سب سے زیادہ خود حکومت کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں چینی کی کم و بیش 81ملیں کام کر رہی ہیں جن میں سے بیشتر پنجاب میں ہیں۔ کاشتکار سخت محنت کے بعد سال بھر میں جو کچھ کاشت کرتے ہیں یہی ان کے پورے سال کا ذریعہ آمدنی ہوتا ہے۔ گزشتہ برس سپریم کورٹ نے جنوبی پنجاب سے اسلام آباد آئے ہوئے متاثرہ کسانوں کے مظاہرے کا نوٹس لیا تھا جس کے فیصلے کی روشنی میں گنے کے کاشتکاروں کا مسئلہ مستقل طور پر حل ہونا چاہئے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین