• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برادرم علی معین نوازش صاحب
میں گزشتہ ایک دہائی سے یورپ میں مقیم ہوں ۔ میں شادی شدہ ہوں اور ہالینڈ میں ایک پاکستانی فیملی میں میری شادی ہوئی ہے ۔ ایک طویل عرصہ کے بعد پاکستان آنا ہوا۔ ہالینڈ میں اللہ تعالیٰ نے ہر نعمت سے نواز رکھا ہے ۔کسی چیز کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ ہاں صرف اپنا ملک بہت یاد آتا ہے ۔ یہاں کی گندی گندی گلیاںاور میلے میلے لوگ بھی یقین کریں دیار غیر میں بہت یاد آتے ہیں۔
ہالینڈ اور یورپ کے دیگر ممالک میں رہائش کے دوران جب بھی وہاں کسی پبلک سروس کے ادارے سے واسطہ پڑا تو ان کی سروس اور انسانیت کی خدمت دیکھ کر نہ صرف رشک آتا ہے بلکہ یہ خواہش بھی زور پکڑتی ہے کہ کاش یہ سارا کچھ ہمارے پیارے ملک پاکستان میں بھی ہو۔ وہ نہ صرف آپ کا مسئلہ حل کرنے تک بے چین رہتے ہیں بلکہ اس دوران اپنے بہترین حسن اخلاق سے بھی آپ کو یہ احساس نہیں ہوتے دیتے کہ آپ کسی دوسرے ملک سے آکر یہاں بسے ہوئے ہیں ۔ لیکن اسکے برعکس اگر آپ کو کبھی پاکستانی سفارتخانے میں کوئی کام پڑ جائے تو پاکستانی سفارتخانہ جو آپ کا اپنا ہوتا ہے وہاں آپکے اپنے لوگ ہوتے ہیں وہ آپ کو زچ کردیتے ہیں ۔ ہر پاکستانی اہلکار یہ سمجھتا ہے جیسے وہ ہی ایمبیسڈر ہے ۔ اور اسکا آپ سے ایسا رویہ ہوتا ہے جیسے آپ دوسرے درجے کے شہری ہیں اور ان کا تعلق کسی رائل فیملی سے ہے ۔ آپ کو گائیڈ کرنے کی بجائے صرف یہ کہہ کر آپ سے جان چھڑالیں گے کہ پہلے کاغذات پورے کریں پھر آئیں اور پھر آ پ جب دوبارہ جائیں گے تو کوئی دوسرا نقص نکال کر پھر آپ کو ایک لمبی تاریخ دے دیںگے۔
علی معین نوازش صاحب! یہ میں کوئی سنی سنائی بات نہیں کررہا بلکہ یہ سب کچھ میرے ساتھ بیت چکا ہے ۔ اگر سفارتخانے سے باہر آپ کو پانچ سینٹ کی فوٹو سٹیٹ کرکے دی جاتی ہے تو سفارتخانے والے آپ سے 25 سینٹ چارج کرکے آپ کو فوٹو کاپی کرکے دیں گے ۔ اس طرح کی چھوٹی چھوٹی باتیں بتانے لگوں تو یہ شاید یہ ای میل بہت طویل ہوجائے ۔ آپ کی توجہ پاکستانی ایئر پورٹس کی طرف بھی دلوانا چاہتا ہوں ۔ جہاں آپ اتریں تو مختلف ڈیوٹیاں دینے والے اہلکار آپ کو اتناتنگ کرتے ہیں کہ پاکستان آنے ¾ اپنے رشتہ داروں سے ملنے اور پاکستانی سرزمین پر قدم رکھنے کی خوشی فوراً ہرن ہوجاتی ہے۔ آپ کے سامان کو اس طرح دیکھا جاتا ہے جیسے خونخوار بھیڑیا کسی بکری کے بچے کو دیکھتا ہے ۔ ہر کوئی ڈالرز ¾ پاﺅنڈ یا یورو کی بات کرتا ہے ۔گزشہ ہفتے جب میں اسلام آبا د ایئر پورٹ سے واپس ہالینڈ براستہ دبئی جارہا تھا میں نے سامان کی چار ٹرالیوں کے 300 روپے کے حساب سے 1200 روپے دیئے ۔ ہم پانچ لوگ تھے ہم سے پانچ ہزار روپے ایئرپورٹ ٹیکس کے وصول کئے گئے ۔ نیلی وردی میں ملبوس ایک صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے کتنے سگریٹ لے کر جارہے ہیں ۔ میں اور میرے سسر نے یک زباں ہوکر جواب دیا کہ ہم سگریٹ نہیں پیتے اور نہ ہی سگریٹ لے کر جارہے ہیں ۔وہ صاحب بولے میں آپکی سہولت کیلئے بات کررہا ہوں ۔ آگے بڑا صاحب کھڑا ہے اگر اس نے دیکھ لئے تو زیادہ پیسے دینے پڑیں گے ۔ آگے آپ کی مرضی ہے ۔ ہمارے سامان میں کچھ ڈبے چاٹ مسالے کے تھے ۔ وہ پہلی چیکنگ میں کلیئر کردیئے گئے لیکن جب دوبارہ چیکنگ ہوئی تو کسٹم اہلکار نے کہا کہ یہ ڈبے نہیں جاسکتے اور وہ ڈبے ہمارے سامان سے نکال لئے کہ انکی اجازت نہیں ہے ۔ میرے سامان سے شیونگ جیل (GEL)نکال لیا کہ اسکی بھی اجازت نہیں ہے ۔جب آپ فیملی کے ساتھ سفر کررہے ہوں اور آپکی فیملی میں بچے خواتین اور بوڑھے افراد شامل ہوں تو پھر آپ کے پاس کوئی چارا نہیں ہوتا کہ آپ انکی باتیں تسلیم کرتے جائیں جب ہم رات کے آدھے پہر کے بعد ویٹنگ لاﺅنج میں گئے تو آپ یقین کریں کہ ہمارے اپنے لوگ نہ صرف تین تین کرسیوں پر سو رہے تھے بلکہ اپنا سامان بھی فرش کی بجائے کرسیوں پر سجا رکھا تھا ۔ اس دوران ایک صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے آپکو انٹرنیٹ سہولت کے ساتھ ویٹنگ لاﺅنج کی بہتر جگہ مہیا کی جاسکتی ہے لیکن اسکے لئے دس ڈالر فی مسافر ادا کرنا ہونگے علی معین نوازش صاحب یہ آپ کو چند موٹی موٹی باتیں بتائی ہیں ۔ تاکہ آپ کو احساس ہو کہ تارکین وطن جب اپنے ملک پاکستان آتے ہیں تو انکے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے ۔چلیں رقم خرچ کرنے کی کوئی بات نہیں ہم اسی لئے کماتے ہیں کہ خرچ کریں ۔ لیکن برا سلوک اور یہ احساس کہ آپ کو تارک وطن سمجھ کر لوٹا جارہا ہے بڑی تکلیف اور دکھ ہوتا ہے ۔میری آپ سے گزارش ہے کہ کبھی اس معاملے پر بھی کالم لکھیں ۔
والسلام ....مظہر صدیقی
تازہ ترین