• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جیو اور جنگ کی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق سندھ بھر میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران 1300سے زائد افراد نے خود اپنی زندگیوں کا خاتمہ کیا جبکہ یہ انتہائی قدم اٹھانے والے 700سے زیادہ افراد کی عمریں 21سے 40برس کے درمیان ہیں۔ اگرچہ اس قسم کے واقعات دوسرے صوبوں میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں اور یہ رجحان دنیا بھر میں عام ہے لیکن ہمارے اسلامی معاشرے میں، جہاں شریعت اور مروجہ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا، متذکرہ صورتحال خطرے کی گھنٹی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سندھ میں ضلع تھرپارکر سب سے زیادہ متاثر ہے جہاں خودکشی کرنے کی جو سب سے بڑی وجہ سامنے آئی ہے وہ غربت، بیروزگاری، بیماری اور علاج معالجہ سے بڑی حد تک محرومی ہے۔ جمعرات کے روز کراچی میں 35سالہ میر حسن نامی شخص کے خودکشی کرنے کی بھی یہی وجہ سامنے آئی ہے کہ باپ بچوں کیلئے گرم کپڑے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا۔ گو کہ یہ رجحان جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ بھارت میں چلا آرہا ہے تاہم ہمیں اس کی موثر روک تھام میں بلاتاخیر سوچ بچار سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ یہاں حکومت سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک قانونی ماہر کی یہ رائے بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ یہ محض ایک صوبے یا حکومت کا نہیں، سماجی مسئلہ ہے، یہ رجحان دنیا کے ہر معاشرے میں پایا جاتا ہے۔ متذکرہ رپورٹ میں ماہرین کی اس بات کو اجاگر کرنا بالکل بجا ہے کہ حکومت کا سب سے پہلا کام غربت کے خاتمے کے اقدامات ہونا چاہئیں، اس کے بعد معاشرتی ذمہ داری ہے جس میں حکومتی، دینی و سماجی سطح پر زندگی کی اہمیت کے حوالے سے بھرپور مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان جیسے اسلامی اور فلاحی ملک میں خودکشی کے رجحانات روکنے میں کوئی امر مانع نہیں تاہم اس میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین