• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک عالمی شہرت یافتہ کیمیکل کمپنی جس کا بزنس دُنےا کے بہت سے ممالک مےں پھےلا ہوا ہے۔ جون سمتھ پچھلے پندرہ برس سے اس کمپنی کا ملازم تھا اورلندن مےں بےوی بچوں کے ساتھ خوش وخرم زندگی گزاررہا تھا ۔وہ اےک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا اور محبت کرنے والا کنبہ تھا۔اُس روز سمتھ گھر آےا تواس کے چہرے پرمردنی چھائی ہوئی تھی جسے دےکھ کر بےوی بچے گھبراگئے : بےوی نے پوچھا خےرےت تو ہے؟ کےا ہوا؟ نوکری تو نہیں چھن گئی؟، ”اس سے بھی بُری خبرہے“سمتھ نے جواب دےا۔ ہواکےا؟’ہواےہ ہے کہ دنےا کے مختلف ملکوں مےں کمپنی کے نمائندے تعےنات ہونے تھے ۔پاکستان کا نام آےا تو کوئی جانے کیلئے تےارنہےں تھا ہم چارلوگوں مےں سے کسی اےک کا انتخاب ہونا تھا سب نے انکارکردےا۔ پرچےوں کے ذرےعے Drawہوا تو مےرانام نکل آےا ہے ’!O, No‘۔۔’ سمتھ تم پاکستان جاﺅ گے ؟‘بےوی نے چےختے ہوئے پوچھا،کمپنی کی ےہی خواہش ہے ’Oh my God‘بےوی اوربچے رونے لگے۔دفترمےں کچھ کولےگ کہہ رہے تھے کہ بہترہے استعفیٰ د ے دو۔زندگی رہی تو کہےں اورنوکری مل جائےگی ،جہاں تمہےں بھےجا جارہا ہے وہاں جاناتو موت کے منہ مےں جانے کے مترادف ہے ”سمتھ تمہارے کولےگ صےحح کہتے ہےں نوکری چھوڑ دومگر پاکستان جانے کاکبھی نہ سوچنا وہاں سے تو زندہ ....“ بےوی پھررونے لگی۔
چند روز بعدکسی دوسری جگہ معقول نوکری نہ ملنے کے خدشات نے سمتھ کو ’موت کی وادی‘ مےں جانے کے امکان کے بارے میںسوچنے پرمجبورکردےا۔قدرت نے وےسے بھی انسان کوبدترےن حالات کے مطابق خود کوڈھال لےنے اور Adjustکرلےنے کی حےرت انگےزصلاحےتوں سے نوازاہے ۔کمپنی نے بھی سمتھ کو صلے کے طورپرHard Area Allowanceاوراضافی مراعات دےنے کا فےصلہ کےا ۔انتہائی مجبوری بلکہ مردہ دلی کے ساتھ سمتھ پاکستان جانے پر تےارہوگےا ۔فےملی ممبرزاوردوستوں نے اسے آہوں اورآنسوﺅں کے ساتھ رخصت کےا۔ ائےرپورٹ پر اکثر دوستوںکاےہ پختہ خےال تھا کہ سمتھ کے ساتھ ےہ انکی آخری ملاقات ہے کےونکہ پاکستان جاکرکوئی زندہ کےسے واپس آسکتا ہے ؟۔
سمتھ ڈرتا ڈرتا اسلام آبادائےرپورٹ پراتراتو دسمبرمےں بھی پسےنے مےں شرابورتھا ۔ائےرپورٹ پرسےکرٹری نے آگے بڑھ کربےگ پکڑلےا۔ شوفر نے دروازہ کھول کر پراڈومےں بٹھاےا۔ وہ راستے مےں کنکھےوں سے دائےں بائےں متوقع قاتلوں اورحملہ آوروں کی طرف دےکھتا رہا لےکن بغےرکسی قاتلانہ حملے کے ہوٹل پہنچ گےا تو اس نے سکھ کا سانس لےا ۔دوسرے روز بھی شوفر نے آگے بڑھ کربےگ اٹھا لےا دروازہ کھول کربڑی سی گاڑی مےں بٹھاےا اور دفترلے گےا ۔دفتر مےں بےگ اٹھانے کے لےے چپڑاسی موجود تھا دروازہ کھولنے کے لےے دوسرا ملازم حاضر تھا۔ فون ملانے کے لئے آپرےٹرتھااور دن کی مصروفےات کا حساب رکھنے کے لےے لےڈی سےکرٹری تھی۔ اب وہ ہوٹل سے اےک بڑی کوٹھی مےں شفٹ ہوگےا ۔اسے نئی زندگی کچھ کچھ اچھی لگنے لگی۔ چندہفتوں بعداس نے باہرنکلنا شروع کردےا۔شاہراہِ دستور،مرگلہ روڈ،سپُر،جناح سُپر مارکےٹ اور پھرشکرپڑےاں کا قدرتی حسن دیکھ کر وہ ششدر رہ گیا اور دامنِ کوہ کی رونقوں اور رعنائیوں نے تو اسے اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔ سمتھ نے خوشی اور Excitement سے مغلوب ہوکربےوی کو فون کےا ۔
Darling! this is not Pakistan...we had heard of. This is a wonderful place.
”یہ وہ پاکستان نہیں ہے جسکے بارے میں ہم نے سن رکھا تھا یہ تو ایک شاندار جگہ ہے“
اپرےل مےں سمتھ دو ہفتے کی چھٹی پر انگلےنڈچلاگےا اورواپسی پر چند دنوں کے لےے بےوی بچوں کو بھی لے آےا، اےک اورکولےگ کی فےملی کے ہمراہ وہ وےک اےنڈ پربھُورربن چلے گئے جسکی خوبصورتی نے سب پر سحر طاری کردےا۔سمتھ جب بےوی بچوں کو ائےرپورٹ پررخصت کررہا تھا تو بےوی اس سے پوچھ رہی تھی ڈارلنگ اب پھرکب پاکستان بلاﺅ گے؟ جسے وہ’ موت کی وادی‘سمجھتے تھے وہ اب انکے لئے اےک شاندار جگہ تھی جہاں اب وہ رہنے کے خواہشمند تھے۔
اس کی تعےناتی چونکہ اےک سال کےلئے ہوئی تھی اسلئے سال کے اختتام پر کمپنی نے اس سے پوچھا کہ واپس آناچاہتے ہوتو آجاﺅمگر سمتھ نے لکھ بھےجا کہ "ممکن ہے کوئی دوسرا ملازم اس "خطرناک جگہ"پرآنے کےلئے تےارنہ ہو اسلئے مےرا ےہاں قےام مزےد بڑھا دےاجائے تومجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا" اسکی تعیناتی کی مدّت میں مزید ایک سال کی توسیع کردی گئی۔کچھ دےر بعد اسے اسلام آباد سے لاہور شفٹ ہونے کی ہداےات ملیں جہاں DHAکی اےک بڑی کوٹھی مےں اس نے رہائش اختےارکی۔ اسی گھر کے نچلے حصّے مےں اس کا دفتر تھا۔ےہاں بھی اسے نوکر،باورچی ،وےٹر ،فون آپرےٹر ،ڈرائےور،گارڈسب کچھ مےّسر تھا۔چنددنوں کے بعد اس نے لاہور کے تارےخی مقامات کی سےر کی ،پارکوں مےں گھوما،ڈےفنس کی مارکےٹوں میں شاپنگ کی، فوڈسٹرےٹ جاکر کھانے کھائے تو اسے بہت لطف آےا ۔ سمتھ اب ایک ایک دن کو انجوائے کررہاتھا۔ لاہورکے کلچر نے اسے مسحور کردیاتھا وہ اپنے انگرےزدوستوں کوبڑی خوشی سے بتاتاتھاکہ’ پاکستانی بڑے گرمجوش اورمہمان نوازہےں مجھے کبھی کسی پاکستانی نے ناگوارنظروں سے نہےں دےکھا۔سال گذرنے کا پتہ ہی نہ چلا۔۔۔اس بارکمپنی کے پوچھنے سے پہلے ہی سمتھ نے خود اپنے ہےڈ آفس کو لکھ بھےجا کہ "اگرچہ ےہ علاقہ بہت خطرناک ہے اورےہاں اےک اےک لمحہ مےں جان ہتھےلی پر رکھ کر گذاررہاہوں زندگی کی کوئی سہولت مےّسر نہ ہے ،انتہائی مشکل اورنامساعد حالات ہےں اےسے ٹف حالات مےں رہنے کا مےں عادی تونہےں تھا مگر کمپنی کے مفاد کے لئے مےں اپنی جان خطرے مےں ڈال کررہ رہا ہوں۔ کوئی اورشخص شائداتنی مشکل زندگی نہ گذارسکے لہٰذا کمپنی کے مفاد کی خاطر مےں پاکستان مےں مزےدرہنے کےلئے تےارہوں“۔کمپنی اسے پاکستان مےں مزےدرہنے کی اجازت دےنے پرتےار نہ ہوئی تو اس نے دوبارہ درخواست بھجوائی کہ"مےری جگہ کسی نئے شخص کےلئے آکر اتنی خطرناک جگہ پر Adjustکرنا ناممکن ہوگا اورجسے بھی بھےجا گےا وہ پہلے مہےنے مےں ہی بھاگ جائےگاجس سے کمپنی کو نقصان ہوگا اسلئے مےں قربانی دےنے کےلئے تےارہوں لہٰذا مےرے قےام مےں توسےع کی منظوری دی جائے"کمپنی نے بڑی مشکل سے اسکی منظوری دے دی، جس پر سمتھ اوراس کی فیملی نے جشن منانے کیلئے لاہورکے وسےع وعرےض بنگلے مےںبہت بڑی دعوت کا اہتمام کےا جہاں کئی اورانگرےز فےملیز کو بھی مدعوکےا گےا۔ اس موقع پرجام سے جام ٹکرائے۔ رقص وموسےقی کے کئی دورچلے ’ہارڈ ایریا ہِپ ہِپ ہُرّے‘ کے نعرے لگتے رہے سب خوب لطف اندوز ہوئے ۔اگلے سال جب سمتھ نے پھر"قربانی دےنے "کی پےشکش کی تو کمپنی نے اس پےشکش کو سختی سے مستردکردےا اوربتاےا کہ ہمارے رولز اسکی کسی صورت میں اجازت نہےں دےتے۔ اس کی جگہ نئی تعےناتی کردی گئی۔سمتھ کو جب ےقےن ہوگےا کہ اب اسے پاکستان جےسی "خطرناک "جگہ کو چھوڑکرجانا ہی پڑے گا تو وہ بہت پرےشان ہوا اور دفترکے اہلکاروں کے بقول وہ ڈپریشن کا شکارہوگےا۔لندن واپس پہنچ کر اسے جب اپنے چھوٹے سے فلےٹ مےں رہنا پڑا ۔کھاناپکانے اور برتن دھونے سے لے کر کمرے کی صفائی تک خودکرنا پڑی تو اسے پاکستان مےں گذاری ہوئی زندگی بہت ےادآنے لگی، ڈپریشن کے شدید دورے پڑنے شروع ہوگئے اوربالاآخر اسے ذہنی امراض کے ہسپتال مےں داخل کراناپڑا۔برطانےہ سے لاہور آئے ہوئے ہمارے دوست ڈاکٹر منےر صاحب سمتھ کا قصّہ سنارہے تھے کہ ہم پارک مےں داخل ہوگئے ۔اےک عجےب نظارہ تھا بچے جوان بوڑھے لڑکے لڑکےاں مرد،عورتےں لوئر، مڈل ،اپرکلاس ہرعمراورہرکلاس کے لوگ پارک میں سیر کیلئے آئے ہوئے تھے کچھ لوگ آہستہ واک کررہے تھے کچھ تےز(Brisk)واک مےں مگن تھے اورکچھ دوڑلگا رہے تھے کہےں برقعہ پوش خواتےن گھوم رہی تھیں اورکہےں جےنزوالی لڑکےا ں Joggingکررہی تھےں ۔ شلوار قمیصوں والے لوگ بھی گھوم رہے تھے اور ٹریک سوٹوں والے گروپ بھی دوڑ رہے تھے۔ کچھ لوگ پنجابی بول رہے تھے۔ کوئی پشتو، کوئی اردو، کوئی سندھی اورکوئی انگریزی میں گپ شب کررہاتھا ۔وسےع وعرےض سبزہ زاروں مےں مَیری گولڈکے خوبصورت پھولوں کی تراشےدہ کےارےاں بڑادلفرےب نظارہ پےش کررہی تھےں ۔ وسیع سبزہ زاروںمےں اےک ہی وقت مےں سےنکڑوں نوجوان کرکٹ اورفٹ بال کھےل رہے تھے۔ اےک کونے مےں بہنےں بھائےوں کے ساتھ کرکٹ کھےل رہی تھےں اورمائیں بچوں کو بےڈمنٹن کھلارہی تھی۔بہت سی فےملیز گھرسے کھاناپکاکرلائی تھےں انہوں نے نرم وگدازگھاس پر ہی دسترخوان بچھا کر قیام وطعام کا بندوبست کررکھاتھا ۔پھولوں کی کےارےوں کے پاس پھول جےسے بچے کھےل رہے تھے ساتھ ہی نوجوان لڑکے اور لڑکےاں کہےں فوٹو بنارہے تھے اورکہےں مستقبل کے منصوبے۔ دوپٹے کہیں سر پر تھے اور کہیں گلے میں۔کوئی کسی دوسرے کو نہ دےکھ رہا تھا نہ اعتراض کررہا تھا سب ماحول اورموسم کی رنگےنےوں اوررعنائےوں سے لطف اندوز ہورہے تھے سب کو اپنی واک اور اپنے ٹریک سے غرض تھی کسی کوکسی دوسرے کا ٹریک رکھنے میں دلچسپی نہ تھی۔ منےر صاحب کا چہرہ شادمانی سے تمتما اٹھا۔ وہ بڑے پُرمسّرت انداز میں کہنے لگے واہ !کیا رو ح پرور نظارہ ہے۔ یہ ہے پاکستان۔۔۔۔۔یہ ہے پاکستان کا کلچر۔ اس میں تنوع بھی ہے، برداشت بھی ہے اور زندگی اور زندہ دلی بھی ہے۔ اس میں کتنے ہی رنگوں کی کہکشاںہے اور یہ سارے رنگ ہمارے ہیں۔مغرب کی اذان ہوئی تو ایک لان میں صفےں بچھ گئیں۔ ٹرےک سوٹ مےں ملبوس نوجوانوں کی کئی قطارےں بن گئےں اوراےک نوجوان نے آگے بڑھ کرامامت کے فرائض سنبھال لئے۔ پارک کا راﺅنڈمکمل ہوا تو ڈاکٹرمنےر کہنے لگے’ ےورپ مےں بہت پارک دےکھے ہےں لےکن اس طرح کا سماں اتنی رونق، زندگی کی اتنی ھماھمی کہیں دیکھنے میں نہیں آئی!ڈاکٹر منیر کہہ رہے تھے ۔ ”سارا جہان ہاتھوں میں محدّب عدسے لیکر ہمارے گھر کی بدصورتےاں ڈھونڈتا پھررہا ہے پھر انہیںبڑھا چڑھا کر دنےاکودکھاےا جاتا ہے۔ باہر والوں کا تو ایجنڈا اور مشن ہی یہی ہے لیکن دکھ تو یہ ہے کہ اپنے بھی انکی پیروی کررہے ہیں ،اور انہی کی گیم کاحصہ بن رہے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں میرے گھر کے ےہ رنگ سکرےن پر نظرکےوں نہےں آتے اِن خوشنمارنگوں کو سکرےن پر بکھےرنے اور اس دلفریب کہکشاں کو اجاگرکرنے کےلئے کیا ہمارے ملک کے کسی چےنل کے پاس کوئی وقت نہےں ہے؟
تازہ ترین