• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تیسری جنگ عظیم ہو گی یا نہیں؟ جنگی جنون میں مبتلا بڑی بڑی افواج کے حامل اور وسیع تر تباہی پھیلانے والے ممالک ٹارگٹڈ ممالک سے محدود جنگوں اور ان پر طرح طرح کے دبائو سے ہی اپنے مرضی کے ’’قومی مفادات‘‘ حاصل کرکے عالمی سیاست کا شیطانی کھیل کھیلتے رہیں گے؟ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بھی جب نیٹو بدستور قائم دائم رہی، واشنگٹن ڈی سی سے نیو ورلڈ کی صدا بلند ہوئی، اسلامی بنیاد پرستی کا ہوا گھڑا گیا، ایک پروفیسر کی پٹاری سے نکلتے ہی ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ جیسا فریمڈ تھیسز میڈیا کی سپورٹ سے دنیا کے علمی حلقوں میں متنازع ہوکر بھی مقبولِ عام ہوا۔ گویا بھرپور جواب ملا کہ سرد جنگ کے خاتمے، پھر اسکے پس پردہ کمیونزم کی بیخ کنی کے باوجود ’’عالمی امن‘‘ کے خود ساختہ علمبرداروں اور سرد جنگ کے فاتحین کا کوئی ہدف نہیں۔ کیونکہ فاتح ممالک میں سرد جنگ کے ختم ہوتے ہی جو متذکرہ منفی رجحانات اور مطلوب عالمی امن کو چیلنج کرتے جو فتنے پیدا کئے گئے، انہوں نے اقوام متحدہ کے قیامِ عالمی امن کے منشور کو مستقلاً مفلوج کر دیا، اب یہ واضح طور پر بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کی بندوق کے زور پر پامالی سے بچائو کی سکت سے بھی یکسر محروم ہو گیا ہے۔ یہ اپنے ہی متفقہ فیصلوں پر عملدرآمد کرانے میں مسلسل اور مکمل ناکامی کے بعد صحتِ عامہ، خواندگی، مہاجروں اور قدرتی آفات کے متاثرین کو ریلیف پہنچانے کے اہداف حاصل کرنے کی کوششوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے حالانکہ یہ تو اقوام متحدہ کے ثانوی مقاصد ہیں جو اس کے اصل اور بنیادی مقاصد، آزادیٔ اقوام کے حقِ خود ارادیت کو یقینی بنانے اور جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کیلئے جنگیں روکنے اور عالمی و علاقائی اور دو طرفہ امن کو ہر حالت میں قائم کرنے کی صورت میں طے پائے تھے اور دنیا بھر کی اقوام نے جس پر اتفاق کرکے آئندہ ہر سطح کی جنگوں کو روکنے کا اجتماعی عزم کیا تھا۔

امر واقعہ یہ ہے کہ سرد جنگ اس لحاظ سے مکمل کامیاب رہی کہ اس نے تیسری عالمگیر جنگ کو روکے رکھا لیکن طاقتور اقوام میں غلبے اور برتری کی شدید خواہش بدستور موجود رہنے کے باعث ایک سے بڑھ کر ایک مہلک ہتھیار کی تیاری رکی نہ تخفیفِ اسلحہ جیسے سہانے عالمی ایجنڈے پر عملدرآمد ہو سکا بلکہ ہتھیاروں کی دوڑ بڑھتی ہی رہی اور آج بھی جاری ہے۔ بڑا اور بہت توجہ طلب سوال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ تیسری عالمی جنگ وسیع تر تباہی پھیلانے والے ہتھیار (ڈبلیو ایم ڈیز) کے ڈھیروں کی آڑ سے نئی حکمت ہائے عملی کے تحت شروع نہیں ہو چکی؟ ’’بیک وقت کئی جنگی محاذ کھولنے اور اس میں الجھنے کے مکمل تباہ کن نتائج‘‘ دوسری جنگ عظیم کے بعد جنگی جنون میں مبتلا باقیات یا عالمی جنگ کے نئے شوقینوں نے سرد جنگ کے کامیاب نتائج نکالنے کے بعد اب ڈبلیو ایم ڈیز کے استعمال کے بغیر جگہ جگہ برسوں تک برقرار رہنے والے خاموش فوجی اڈے قائم کرنے، داخلی عدم استحکام پیدا کرنے کیلئے قوم کی تقسیم اور اس کیلئے ایجنسیوں کے ذریعے مسلسل پراکسی وار، میڈیا اور سوشل میڈیا کا تیر بہدف استعمال، اقتصادی پابندیوں کا موثر حربہ جیسے تباہ کن ہتھیاروں سے تیسری جنگ عظیم جاری نہیں؟ یہ جو سی پیک کے پُرامن اور بین العلاقائی استحکام کے انقلاب آفریں چینی منصوبے کا چرچا ہوا، اسکے جواب میں ’’تجارتی جنگ‘‘ کیا اعلان کیے بغیر ہونے والی تیسری جنگ کا ہی ایک نیا اور بڑا محاذ نہیں؟ اور یہ جو مشرق وسطیٰ کو سینٹو میں شامل کرنے کا نیا شوشہ شروع ہوا ہے، یہ جاری تیسری جنگ ایک اور بڑا محاذ کھولنے کی تیاری نہیں؟ پُرامن و خوشحال مشرق وسطیٰ کی تباہی کا جو آغاز، افغانستان میں روسی عسکری موجودگی کے دوران ایک عشرے کی ایران عراق جنگ سے ہوا تھا، وہ وقفے وقفے سے نئے نئے انداز میں شام و یمن و عراق کی تباہ کاری اور ایران سعودی سرد جنگ کے بعد بھی واضح نہیں ہوئی کہ اتنے حساس خطے میں یہ بربادی اور مسلسل گہری تشویش کا ماحول پیدا کیا ہے؟ کیوں پیدا کیا گیا، کس نے کیا، اسکے کیا نتائج نکلے اور کیا نکالنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں؟ مغربی اردن اور شام کے مقبوضہ پہاڑی علاقے گولان کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو جوتے کی نوک پر رکھ کر، اسرائیل کا علاقہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اپنے مکمل تحفظ کیساتھ ساتھ امن کے پیامبر بنتے ہوئے اتنے بڑے بڑے اہداف کا حصول تاریخ میں اور ماضی قریب بھی بڑی بڑی جنگوں کے بغیر ہو سکتا تھا؟ نہیں، تو اب کیسے ہو رہا ہے؟ کیا یہ ایک بڑی لیکن کامیابیاں سمیٹتی نئی طرز کی جنگ نہیں؟ کیا جاری تیسری جنگ عظیم کے اہداف حاصل نہیں کیے جا رہے؟عشروں سے مغربی تھنک ٹینکس دنیا کو تیار کر رہے تھے کہ تیسری عالمی جنگ ایشیا میں لڑی جائیگی، پورے مشرق وسطیٰ میں برسوں سے وسیع تر تباہی اور ہلاکتوں کا سلسلہ جاری نہیں؟ کہیں آمریتوں کے بت توڑنے کی آڑ میں تو کہیں مطلب کی آمریتوں کی حفاظت کیلئے، امت خرافات میں کھو نہیں گئی؟

نظریاتی حملہ بھارت پر بھی ہوا۔ مقبوضہ کشمیر کی متنازع حیثیت ختم کرنے کیلئے سیکولر ازم کا تختہ کرنے اور مسلمانوں کو وطن محروم فلسطینی بنانے کیلئے لیکن برصغیر کا رنگ کچھ اور نکلا، مزاحمت ہوئی اور ہو رہی ہے۔ یہ ہی ایک امید ہے اور جس طرح پاکستان کی نئی حکومت نے سب سے پہلے ’’فقط امن عمل کا اتحادی بننے‘‘ کی جو پالیسی اختیار کی ہے، وہ ہی دنیا میں ’’امن و جنگ‘‘ کی جنگ میں کوئی نئی صورت تشکیل دے گی، جس میں اقوام متحدہ پر اٹھنے والے سوال عدم جواب اور عالمی ادارے کے اسٹیٹس کو کو چیلنج کرنے میں تبدیل ہونگے۔ معاملہ یہیں تک نہیں ہے، سوال یہ بھی ہے کہ کیا چار سال قبل امریکہ میں اٹھنے والی ’آکو پائے وال اسٹریٹ موومنٹ‘ واقعی مکمل کرَش ہو گئی یا امریکہ کی بھی محدود سیاسی نظریاتی تقسیم سیاسی اور جمہوری انداز میں بڑھتی ہوئی کبھی ایسی صورت پیدا کریگی کہ اقوام متحدہ اپنا اعتبار کھوتے کھوتے، ناوابستہ ممالک کی تحریک (NAM) کی سطح پر آ جائے، اس کیلئے امریکہ اور یورپی اقوام کا اجتماعی شعور اور بیداری محتاط و محدود لیکن نتیجہ خیز جاری ’’تیسری جنگ عظیم‘‘ کو ختم کرنے کی اہلیت اپنے جمہوری جذبے سے پیدا کر سکیں گے، یا توقعات کے بالکل برعکس یہ ان ہونی، ایشیا کے اتحاد سے ہو سکے گی، جو پوری اور بری طرح تقسیم ہے، اِس تقسیم میں سب سے بڑا کردار بھارت کی نئی مینڈیٹڈ قیادت کا ہے، جس نے اپنے ہی ملک نہیں پورے خطے اور براعظم کی تقسیم میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت کو ثابت کیا ہے اور مزید کرتی نظر آ رہی ہے۔

تازہ ترین