• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اوکاڑہ کی سیاست، پولیس اور شرمیلا فاروقی!...آفتابیاں … آفتاب اقبال

کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے ضلع اوکاڑہ کا شمار پنجاب بھر میں پھیلی جرائم کی جملہ اماجگاہوں میں ہوتا تھا۔ چوری، ڈکیتی، راہزنی، حتیٰ کہ قتل جیسی سنگین وارداتوں میں بھی یہ شہر اپنا ایک الگ مقام رکھتا تھا۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک افرادی قوت کے اعتبا ر سے اوکاڑہ نے دو طرح کے لوگ بکثرت پیدا کئے ہیں۔ ا یک چور اور دوسرے وزیر ہمارے دوست حکیم # صاحب کا کہنا ہے کہ ایک وقت تھا کہ یہاں ہر دوسرے گھر میں چور اور ہر پانچویں گھر میں وزیر پیدا ہوتا تھا۔
مگر پھر انچانک اس شہر باکمال کو کسی کی نظر لگ گئی۔ اب یہاں وزیروں کا کال پڑا ہوا ہے اور ایک طویل عرصے بعد شاید یہ پہلا دور ہے کہ یہاں فقط دو وزیر پائے جاتے ہیں۔ ورنہ شدید بدحالی کے موسم میں بھی یہاں کم از کم چار وزیر اور لگ بھگ تین پارلیمانی سیکرٹری تو ضرور ہی دندناتے دکھائی دیتے۔ اس دور میں لوگ اوکاڑہ کو وزیرستان کہہ کر چھیڑا بھی کرتے۔ مگر اب قحط الرجال کے اس عالم میں وزیر تو کمیاب تھے ہی، چور بھی کم ہوتے جا رہے ہیں اور ڈاکو تو برائے نام بھی باقی نہیں بچے۔
اس بدنصیبی میں سب سے بڑا عمل دخل یہاں کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر ڈاکٹر حیدر اشرف کا ہے۔ یہ شخص بھی پرلے درجے کی بے چین روح واقع ہوا ہے۔ لاہور میں تھا تو دہشت گردی کے خلاف ایک مشہور معرکے میں زخمی ہوا اور تمغہ شجاعت سے نوازا گیا۔ شیخوپورہ گیا تو وہاں جگہ جگہ بورڈ نصب تھے کہ اس علاقے میں پولیس کا آنا ممنوع ہے۔ یہ بورڈ منشیات فروشوں اور ڈاکوؤں کی طرف سے نصب کئے گئے تھے۔ اب اول تو ایسے بیہودہ بورڈوں پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہی پیش نہیں آنی چاہئے تھی اور پھر اگر چند قانون شکن حضرات نے کسی ہمے دعوے کے ساتھ یہ اعلان کر ہی دیا تھا تو اس پر اتنا سنجیدہ ہونے کی تو گنجائش ہی نہیں تھی مگر اپنے ڈاکٹر صاحب کو بھلا کون سمجھائے تھوڑی سی نفری کے ساتھ جا گھسے علاقہ غیر میں اور اغواء برائے تاوان، ڈکیتی و قتل جیسے کاروبار سے منسلک معززین کے ساتھ جو سلوک کیا اُسے عرف عام میں آپریشن کہا جاتا ہے۔ اس ”بد سلوکی“ نے بیچاروں کی تو کمر ہی توڑ کر رکھ دی۔ سنا ہے ان میں سے ایک مشہور ڈاکو بھائی صاحب باقاعدہ سزا کاٹنے کے بعد اب گرم حمام چلاتے، نیکی کا درس دیتے اور برائی سے منع فرماتے ہیں۔ یہ کبھی مشہور کاشی گینگ کا حصہ ہوا کرتے تھے۔
خیر، برے کاموں کا بُرا نتیجہ، ڈاکٹر حیدر اشرف کا وہاں سے تبادلہ کر دیا گیا کیونکہ شیخوپورہ کے بعض اہم سیاستدانوں کو ان کا ہتھ چھٹ رویہ ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ او رپھر بھا بھی کیسے سکتا ہے کہ اب کون سیاستدان ہو گا جو اپنے سایہ شفقت میں پلتے پنپتے چور اُچکوں کی سرعام بے عزتی برداشت کرتا۔ تاہم جونہی ڈاکٹر صاحب کے تبادلے کی خبر عوام تک پہنچی، یہ بے وقوف لوگ بجائے یوم نجات منانے کے، اُلٹا تبادلے کے خلاف جلسے جلوس پر اُتر آئے۔
ڈاکٹر صاحب یہاں سے نکلے تو اُنہیں اوکاڑہ جیسا مادر پدر آزاد ضلع سونپ دیا گیا۔ پچھلے ہفتے ہم اوکاڑہ گئے تو وہاں کا جو خبرنامہ ہمیں پیش کیا گیا اس میں بھی ڈی پی او کا تذکرہ سرفہرست تھا۔ قدم قدم پر کھُلی کچہریوں اور چھاپہ مار ٹیموں نے مجرموں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ اس خبرنامے کی دوسری اہم خبر یہ تھی کہ نواز شریف دو چار دن کے اندر اندر میاں منظور وٹو کے علاقے میں ایک بھرپور جلسہ کر کے وٹو کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے نظر آئے ہیں۔ خیر گزشتہ روز ہم نے یہ سب کچھ ہوتا ٹی وی سکرین پر بھی دیکھا۔ وٹو صاحب کے حالات کچھ زیادہ اچھے دکھائی نہیں دیتے۔ یہاں ان کے حالات سے مراد سیاسی حالات ہے، معاشی نہیں۔
اگلی خبر کا تعلق میاں منیر احمد سے ہے جو کہ اوکاڑہ میں موجود نواز لیگیوں میں معقول ترین ہیں مگر پارٹی کی مقامی و مرکزی قیادت انتخابی ٹکٹ کے معاملے میں انہیں مسلسل نظر انداز کر رہی ہے اور اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو اس کا پیپلز پارٹی بھرپور فائدہ اٹھائے گی۔ اس کے بعد ایک خبر ہمارے کانوں تک یہ پہنچی کہ شرمیلا فاروقی ایک ہفتے کے اندر اندر اوکاڑہ کی بہو بننے والی ہیں۔ ہمارا ماتھا ٹھنکا اور ہم نے قدرے حیرت کا اظہار بھی کیا۔ چونکہ موصوفہ ایک عمدہ شخصیت کی مالک ہیں اور پیپلز پارٹی سے متعلق ہونے کے باوجود خاصی نفیس اور سمجھدار خاتون واقع ہوئی ہیں، اس لئے دل ہی دل میں ان کے ساتھ غائبانہ اظہار ہمدردی بھی کیا۔ مگر بعد میں جب یہ عقدہ کھلا کہ ان کی منگنی ہمارے دوست ریاض شیخ کے صاحبزادہ ہشام ریاض کے ساتھ طے پائی ہے تو ہمیں کافی بے فکری ہوئی کہ ہشام ہمارے خیال میں تو شرمیلا سے بھی زیادہ معقول اور عمدہ شخص ہے۔ ڈپٹ لائن اوکاڑہ سے موصول ہونے والی آخری خبر کا تعلق بھی ڈی پی او ڈاکٹر حیدر اشرف کے ساتھ ہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اوکاڑہ کے قانون شکن ”معززین“کی جوگت بنائی ہے اس کے پیش نظر یہاں کی سیاسی شخصیات نے بھی ان کے خلاف صف بندی شروع کر دی ہے اور دو ایک احباب تو وزیر اعلیٰ سمیت چند دیگر اہم شخصیات کے کان بھرنے میں بھی کامیاب ہو چکے ہیں مگر شہباز شریف نے فی الحال تو یہ شکایت ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دی ہے آگے کا پتہ نہیں!
تازہ ترین