اسلام آباد (طارق بٹ) انتہائی احتیاط کے تحت سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف نے خصوصی عدالت سے سزائے موت کے خلاف اپیل دائر کی۔ انہیں انتہائی غداری کے مقدمے میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ گو کہ لاہور ہائی کورٹ نے سزا کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ اپیل دائر کرنے کا مقصد اس 30 روزہ مہلت کو ضائع نہ کرنا تھا، جس کی انتہائی غداری کے قانون میں گنجائش ہے۔ پرویز مشرف کے وکیل اظہر صدیق نے رابطہ کرنے پر کہا لاہور ہائیکورٹ نے گو کہ تمام ریلیف فراہم کر دی ہے، اس کے باوجود مقررہ وقت میں اپیل دائر کر دی گئی ہے کہ اگر کہیں سپریم کورٹ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو ایک طرف نہ رکھ دے۔ ان کا کہنا ہے ہم نے تحریری درخواست میں کہا ہے ہم لاہور ہائیکورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے پر عدالت عظمیٰ مطمئن ہو تو اپیل واپس لے لیں گے۔ اظہر صدیق نے کہا لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد سے کوئی عدالتی حکم نہیں آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی سپریم کورٹ میں دائر ہونے کے 9 سال بعد سنی گئی۔ تاہم ممتاز قانون دان عمر سجاد کا موقف ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کو مذکورہ مقدمے کی سماعت کا کوئی اختیار نہیں ہے کیونکہ انتہائی غداری سے متعلق ایکٹ کے تحت خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کا اختیار سپریم کورٹ کو ہے۔ جمعرات کو پاکستان بار کونسل نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو چلینج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس مقصد کے لئے وکلاء کی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ عمر سجاد نے کہا کہ سپریم کورٹ کو اختیار ہے کہ وہ پرویز مشرف کو اپیل واپس لینے کی اجازت نہ دے۔ تاہم اب معاملہ سپریم کورٹ میں ہے، جہاں قطعی فیصلہ ہو جائے گا۔ وفاقی حکومت کے وکیل اشتیاق اے خان نے پرویز مشرف کی مکمل حمایت کی ہے۔ جسٹس نقوی اپنے ریمارکس میں کہہ چکے ہیں کہ ایمرجنسی کا نفاذ بھی آئین ہی کا حصہ ہے۔ عدالت کے معاون وکیل سید علی ظفر نے کہا پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی ایماء پر دائر کیا گیا، اس بات کا کوئی ریکارڈ نہیں کہ معاملہ کسی کابینہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل رہا ہو۔ ان کا اس بات پر زور رہا کہ آرٹیکل۔6 کے تحت مقدمہ کابینہ کی منظوری کے بغیر دائر نہیں ہوسکتا۔