• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن
امریکہ، ایران تنازع باقاعدہ جنگ کی صورتحال سے تو باہر اگیا ہے البتہ آگ ابھی سلگ رہی ہے اور یہ سلگاؤ ابھی ٹھنڈا ہونے والا نہیں۔ جب بھی مشرق وسطیٰ یا جنوبی ایشیا میں کسی قسم کی کشیدگی بڑھتی ہے تو کئی طرح کی چہ مگوئیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ مثلا اب عالمی جنگ شروع ہونےو الی ہے۔ جہادی عناصر اسے فوری طور پر کفرو اسلام کا آخری معرکہ کی ابتدا قرار دینا شروع کردیتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ غزوہ ہند شروع ہوگیا ہے۔ میڈیا بھی ان میں سے کسی ایک موقف کو تھامے کھڑا نظر آتا ہے۔ اس طرح کی باتیں تو ہم اس وقت سے سن رہے ہیں۔ جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ یہ ہمیشہ زبان رد عام ہوتا ہے کہ دراصل ان تمام لڑائیوں میں امریکہ کا اصل ہدف تو پاکستان ہے اور یہ بالآخر پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لینا چاہتا ہے اور یہ سب پاکستان کا گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ اصل میں تو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خاتمے کیلئے کیا جارہا ہے۔ ایسی خرافات کون پھیلاتا ہے یا ایسی اسٹوریاں کہاں سے جنم لیتی ہیں۔ یہ بھی ایک پورا الگ سے موضوع ہے اور ایسی کہانیاں پھیلانے سے یقینا کسی کے مفادات کی تکمیل ہوتی ہے۔ جب بھی ایسی صورتحال ہوتی ہے مجھے وہ لطیفہ یاد آجاتا ہے کہ چوہے جنگل سے شہر کی طرف بھاگ رہے تھے۔ کسی نے چوہوں کو روک کر پوچھا کہ کیا بات ہے کیوں اتنی افراتفری سے بھاگ رہے ہو تو ایک چوہے نے کہا کہ ہمیں مت روکو۔ ہمیں جانے دو، کیونکہ جنگل میں کسی نے شیر کی بہن کو چھیڑا ہے اور شک ہم پر ہے۔ لگتا ہے اسی طرح ہم اپنے عوام کو جو پرانے وقتوں میں ڈبے میںبچوں کو ڈبے کے نیچے چابی گھما گھما کے فلم دکھائی جاتی تھی۔ ہمیںبھی ابھی تک اسی طرح کی فلم دکھائی جاتی ہے اور ہم اسی فلم دیکھ کر بڑی جذباتی قسم کی یکجہتی کا اظہار کرنا شروع کردیتے ہیں۔ خیر یہ تو ایسی صورتحال میں پاکستان میں پیدا ہونے والی صورتحال کی مختصرسی تصویر کشی ہوگئی۔ اصل میں امریکہ، ایران تنازع کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایران کے اپنے گردونواح سے ترکی،کویت، شام، لبنان کے ساتھ اچھے دوستانہ تعلقات ہیں۔ عالمی سطح پر روس کو ایران کا اتحادی سمجھا جاتا ہے،جبکہ سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات نہ صرف امریکی اتحادی ہیں بلکہ ایران کی طرف وہی رویہ رکھتے ہیں جو امریکہ رکھتا ہے۔ سعودی عرب تو ایران کے ساتھ یہاں تک دشمنانہ تضاد رکھتا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ اگر اسرائیل، ایران پر حملہ کردے تو سعودی عرب، اسرائیل کا ساتھ دے گا۔ پاکستان اور افغانستان بظاہر تو ایران کے دوست ہیں لیکن ایران کے مشکل وقت کے اتحادی نہیں ہیں بلکہ پاکستان پرامریکی اور سعودی دباؤ اسے امریکی کیمپ میں ہی لے جا کھڑا کرے گا۔ اس وقت فوجی اعتبار سے سوا آٹھ کروڑ نفوس پر مشتمل ایران کے پاس چار لاکھ کی پروفیشنل اور تجربہ کار فوج ہے جس کے پاس عراق کے ساتھ طویل لڑائی کا تجربہ بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانی فوج اپنا ہی تیار کردہ بیشتر اسلحہ استعمال کرتی ہے لیکن اسے کچھ جدید اسلحہ کی روسی امداد بھی حاصل ہے۔ ایران کی ڈرون ٹیکنالوجی بھی خاصی ایڈوانس ہے۔ ایران ایٹم بم بنانے کے خاصا قریب پہنچ چکا ہے۔ جسے امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل کسی صورت میں پایہ تکمیل تک نہیں پہنچنے دینا چاہتے۔ ایران کرہ ارض پر کسی بھی تباہی کا ذمہ دار امریکہ کو ہی سمجھتا ہے۔ جو کہ ناصرف ایٹم بم کا استعمال کرچکا ہے بلکہ اس وقت امریکہ کے پاس دنیا کے سب سے بڑے فوجی بجٹ کے علاوہ ہزاروں ایٹمی وار ہیڈز ہیں۔ ایران کے حزب اللہ کے ساتھ بھی گہرے تعلقات ہیں اور وہ حزب اللہ کو ہرسال 100ملین ڈالر کا اسلحہ اور فوجی سازو سامان سپلائی کرتا ہے۔ اس وقت ایران کے پاس تین سو کلومیٹر سے لے کر دو ہزار کلومیٹر تک مار کرونے والے میزائیل موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ ایران کے خلاف بڑھکیں تو لگاتا ہے لیکن حملہ کرنے سے کنارہ کشی کرجاتا ہے۔ حال ہی میں جب امریکہ نے عراقی سرزمین پر ایرانی جنرل سیلمانی کو ٹارگٹ کیا تو عام خیال تھا کہ ایران کی جوابی حملے کی صورت میں امریکہ کےساتھ بڑی جنگ میں دھکیل دے گی لیکن امریکہ نے ایسا نہیں کیا۔ امریکہ بڑی طاقت ہونے کے باوجود کسی ایسے ملک میں پھڈا مول نہیں لینا چاہتا جو آگے سے جوابی کارروائی کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جنوبی کوریا اور اب ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ تاہم امریکی مفادات کے حوالے سے ایران اس وقت یورپ پر بہت برہم ہے جو کہ امریکہ کی طرف سے ایران کی ایٹمی ڈیل پر تحقیقات شروع کرانے پر زور دے رہا ہے۔ ایران سمجھتا ہے کہ یہ امریکہ کو کمزور ممالک پر غنڈہ گردی کی کھلی چھٹی کی حمایت ہے۔ یوں تو ایران بھی گردونواح کے اپنے ہم مسلک اہل تشیع کی اعانت اور مدد کرتا ہے جس طرح دنیا بھر میں سنی وہابی تحریک کی سعودی عرب مدد کرتا ہے بلکہ اپنے ہم مسلک مسلح گروپس کی بھی بھرپور مدد کرتا رہتاہے۔ ابھی حالیہ امریکہ ایران کشیدگی میںایران سے یک بعد دیگر یوکرائن کا جہاز گرانے اور پھر برٹش سفیر کو گرفتار کرنے جیسے غلطیوں نے ایران کو خاصا دفاعی صورتحال میں ڈال دیا ہے۔ ایران کے ان ناپختہ اقدامات سے ایران کی مہم جوانہ نفسیات کا بھی پتہ ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی فاش غلطیوں اور ان پر غلط بیانیوں کی وجہ سے ایران کے عوام اپنی ہی حکومت کےخلاف سڑکوں پر آگئے ہیں۔ امریکہ اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہا ہے تاکہ وہ ایران کی موجودہ حکومت کو غیر مستحکم اور بالآخر اقتدار سے دور کردے۔ ایران کے پاس بہت محدود آپشنز ہیں کیونکہ یوکرائن واقعے نے ایرانی فوج میںبھی دراڑ ڈال دی ہے۔ اب اگلا مہینہ ایران کیلئے خاصہ بھاری محسوس ہوتا ہے اور ایران میں اندرونی تبدیلی ناگزیر دکھائی دیتی ہے۔
تازہ ترین