• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر :قاری عبدالرشید ۔اولڈھم
 ہمارے معاشرے میں بعض بیویوں کو خاوندوں سے اور خاوندوں کو اپنی بیویوں سے جو جائز قسم کے شکوے شکایتیں ہوتیہ ہیں ان کو دور کرنے کا حل اسلام خوب بتاتا ہے۔مثال کے طور پر بیوی کہتی ہے کہ میرا خاوند مجھے وقت نہیں دیتا اور مجھے چھوڑ کر ادھر ادھر دوسری عورتوں کے پاس جاتا ہےاور خاوند کو شکایت ہوتی ہے کہ میں کیا کروں کہ میری بیوی کے پاس میرے لیے وقت نہیں ہوتا۔ میرے لیے زیب و زینت اختیار نہیں کرتی۔میں بلائوں تو طرح طرح کے حیلے بہانے کرتی ہے فلاں فلاں۔قارئین میرے سامنے اگر کوئی بیوی یا خاوند اپنے ذاتی مسائل لے کر آتے ہیں تو ان کی آپس کی چپقلش یا ناچاقی و بد اعتمادی کی سوئی آخر کار رکتی اسی بات پرہے جو اوپر آپ نے پڑھ لی۔اپنی ان مسلمان خواتین کے سامنے احادیث نبویﷺ کی روشنی میں یہ گزارش کروں گا کہ خاوند کی جائز شکایات کا ازالہ کرنا آپ کا د ینی فریضہ ہے۔اگر عورت اپنے خاوند کے ساتھ اسلام کے بتائےہوئے طریقے سے پیش آئے تو مجھے یقین ہے کہ عورت کی شکایت جو اپنے خاوند سے ہےاس کا ازالہ خود بخودہو جائے گا اور گھر کا ماحول اور خاوند بیوی کے تعلقات نہ صرف اچھے بلکہ مثالی بن جائیں گے ۔جیساکہ ہمارے قرب و جوار میں ایسے خاوند و بیوی ضرور رہتےہ وں گے جن کی آپس کی محبت اور رہنے سہنے کی باتیں اہل محلہ ضرور کرتے ہوں گے ۔اس تحریر میں عورت کی شان و مقام اور خدمات جو اس کے ذمہ ہیں کا ذکر اس امید سے ہو گا کہ جو مسلمان خاتون اس کو پڑھے وہ اس کو اپنی عملی زندگی میں لائے اور اپنے گھر کے ماحول کو خوب امن و سکون کا گہوارہ بنائے۔( بچوں پر نہایت مہربان، اور خاوند کے مفادات کا خیال رکھنے والی عورت) ایک حدیث میں بہترین اور صالح ترین عورت کی یہ دو صفات بیان ہوئی ہیں: ’أَحْنَاہُ عَلٰی وَلَدٍ فِی صِغَرِہٖ وَأَرْعَاہُ عَلٰی زَوْجٍ فِی ذَاتِ یَدِہٖ‘[بخاری]’اپنے بچوں پر جب کہ وہ کم عمر ہوتے ہیں، بڑی مہربان اور شفیق اور اپنے خاوندوں کے معاملات میں ان کے مفادات کا بہت خیال رکھنے والی۔‘‘اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ عورت کا دائرۂ کار گھر کی چار دیواری ہے جس میں گھریلو امور سر انجام دینے کے علاوہ، مزید دو ذمے داریوں کا بوجھ بھی اس نے اٹھانا ہے۔ ایک بچوں کی حفاظت، جس میں حمل سے لے کر رضاعت (دودھ پلانے) تک اور اس کے بعد بھی تعلیم و تربیت تک کے مراحل ہیں۔ دوسرے خاوند کی خدمت و اطاعت کے امور کی انجام دہی ۔ گویا عورت نے بہ یک وقت تین خدمات سر انجام دینی ہیں:(1)امور خانہ داری۔(2)بچوں کی پرورش و نگرانی۔(3)خاوند کی خدمت اور اس کی خواہشات کی تسکین۔یہ تینوں خدمات اتنی عظیم ہیں کہ اس کے شب و روز کے تمام لمحات اس میں صرف ہوجاتے ہیں یوں وہ پورے طور پر مرد کی شریک زندگی بن کر مرد کو اس کو سکون مہیا کرتی ہے جس کی وجہ سے مرد گھریلو معاملات سے بے فکر ہو کر یکسوئی سے کسب معاش میں مصروف رہتا ہے۔اسی لیے شریعت اسلامیہ نے عورت کو کسب معاش کے جھمیلوں میں ڈالنا پسند نہیں کیا ہے کیونکہ یہ دوہری ذمے داری ہوتی کہ وہ گھر کا سارا انتظام بھی سنبھالے اور گھر کا نظام چلانے کے لیے سرمایایہ بھی مہیا کرے۔ یہ ظلم ہے اسلام نے عورت کو اس ظلم سے بچایا اور کسب معاش کا مکمل ذمے دار مرد کو قرار دیا ہے۔(خاوند کی خدمت و اطاعت کی اہمیت و تاکید) خاوند کی خدمت و اطاعت کی اسلام میں کتنی اہمیت اور تاکید ہے، اس کااندازہ ذیل کی چند احادیث سے لگایا جا سکتا ہے۔ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو یقینا عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کیا کرے۔‘[ترمذی]دوسری حدیث میں فرمایا: ’’عورت خاوند کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ نہ رکھے۔[مسلم](خاوند جب بھی بیوی کو بلائے، بلا تاخیر اس کی خواہش پوری کرے)ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، عورت اپنے رب کا حق اس وقت تک ادا نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ اپنے خاوند کا حق ادا نہیں کرتی، اگر خاوند اس سے اپنی (ہم بستری کی) خواہش کا اظہار کرے جب کہ وہ اونٹ کے کجاوے پر بیٹھی ہو (پا رکاب ہو، کہیں جانے کے لیے گاڑی وغیرہ میں بیٹھی ہو) تب بھی اسے اس کی خواہش پوری کرنے سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔[ابن ماجہ] انکار کرنے والی عورت پر فرشتے لعنت کرتے ہیں ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب مرد اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ آنے سے انکار کردے تو صبح تک فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں۔‘‘ایک دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:’’جب عورت اپنے خاوند کے بستر کو چھوڑ کر رات گزارتی ہے تو فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں تا آنکہ وہ لوٹ آئے[بخاری]۔
تازہ ترین