• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلی بات تو یہ ہے کہ اس سلسلے کے دوسرے کالم میں پروف کی خاصی غلطیاں رہ گئی تھیں، امید ہے قارئین نے خود ہی ٹھیک کر لی ہوں گی۔ بہرحال اب آگے چلتے ہیں۔ 

بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے اپنی اس جدوجہد میں وہ قربانیاں بھی دی ہیں جو واجب بھی نہ تھیں۔ حالیہ تاریخ میں کسی سیاست دان نے عمر کے اس حصے میں اس جوانمردی کے ساتھ حالات کا مقابلہ نہیں کیا جتنا میاں صاحب نے کیا۔ اپنی زندگی دائو پر لگا دی۔ 

باقی رہی یہ بات کہ ترمیمی ایکٹ کی منظوری میں حکومت کا ساتھ کیوں دیا، تو قصہ یہ ہے کہ یہ قانون کہتا ہے کہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن وزیراعظم کا اختیار ہوگا۔ واضح رہے پہلے بھی یہ اختیار وزیراعظم ہی کے پاس تھا مگر سپریم کورٹ نے کہا کہ اس پر قانون سازی کی جائے۔ 

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس قانون کو بہتر بنانے کیلئے تمام جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھتیں اور حکومتی ڈرافٹ میں کوئی ایسی شق ڈالنے کا مطالبہ کرتیں جس سے یہ نہ لگتا کہ ان جماعتوں نے فقط قانون پر انگوٹھا لگایا ہے۔ 

مگر یہ آئیڈیل بات تھی، مگر ابھی ہم آئیڈیل معاشرے میں نہیں رہ رہے بلکہ اس کی طرف قدم بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف جب لاہور کے سروسز اسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھے تو اس وقت اسپتال کے باہر لاہور کے ایم پی ایز اور ایم این ایز اپنے ساتھیوں کے ساتھ ڈیرے ڈالے نہیں بیٹھے تھے بلکہ میڈیا کی گاڑیوں سے پتا چلتا تھا کہ میاں نواز شریف اسپتال میں موجود ہیں۔ 

یہ وہی ایم پی ایز اور ایم این ایز ہیں جو جماعت کی تنظیم سازی کی وجہ سے نیچے سے اوپر نہیں آئے بلکہ انہیں چھاتہ بردار ہی کہا جا سکتا ہے۔

باقی رہی یہ بات جو بہت زیادہ اچھالی گئی کہ یہ (نواز شریف) کیسے بیمار ہیں، جو ہوٹل میں دوستوں کے ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے ہیں، تو میاں صاحب کی بیماری کی شدت سے انکار کی یہ بہت بودی دلیل ہے۔ 

جو شخص شدید علالت کے باوجود نیب اور عدالتوں کی پیشیاں بھگتنے کیلئے لمبی راہداریوں پر پیدل چل کر منصف کے سامنے پیش ہوتا ہو، اس کے علاوہ بھی اسے کئی مقامات پر جانا پڑتا ہو، تو کیا ایسا شخص جو مسلسل گھر پر بیٹھا رہے اور آسمان کی شکل بھی نہ تک سکا ہو، وہ ڈپریشن کا شکار نہیں ہو جائے گا اور اس کی بیماری مزید شدت اختیار نہیں کرے گی؟ 

آج سے پندرہ برس قبل میرا کینسر کا آپریشن ہوا اور ڈاکٹروں نے دائیں جانب کا گردہ بھی نکال باہر کیا۔ یہ میجر آپریشن تھا، ابھی ٹانکے کچے تھے مگر میں اپنے ایک دوست کے ساتھ گھومنے پھرنے کیلئے اسپتال سے فرار ہو گیا بلکہ آپریشن کے اگلے ہی دن ایک تیماردار کا سہارا لیکر باہر برآمدے میں سگریٹ پینے کیلئے کمرے سے نکل آیا تھا۔ 

کیا دیکھنے والوں نے یہ کہا ہوگا کہ یہ شخص کینسر کا مریض نہیں ہے، اس کا آپریشن ہی نہیں ہوا۔ میرے ساتھ ایسا نہیں ہوا بلکہ ’’غالب کے طرفداروں‘‘ نے اسے میری جوانمردی قرار دیا۔ 

البتہ عزیزم حسن نواز کا یہ بیان کہ میاں صاحب ہوا خوری کیلئے گھر سے نکلے تھے، مناسب نہیں تھا۔ کیونکہ وہ ہوا خوری نہیں ’’خوری‘‘ کیلئے گھر سے نکلے تھے۔

بہرحال باتیں بنانے والے باتیں ضرور بنائیں گے، یہ لوگ تو بیگم کلثوم نواز کی تصویر بنانے کیلئے ان کے اسپتال کے کمرے میں گھس گئے تھے جب وہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھیں تاکہ ان کی بیماری کو بہانہ قرار دے سکیں۔ 

ہمارے ہاں سیاست بہت بے رحم ہو چکی ہے، سو یہ باتیں تو آئندہ بھی ہوں گی، البتہ اس بزرجمہر کا پتا ضرور لگانا چاہئے جس نے مسلسل گھر میں بند رہنے کے بعد ایک دن ہوٹل میں کھانا کھانے کی تصویر بنائی تھی اور اخباروں کو جاری بھی کر دی۔ 

تاہم میرے خیال میں یہ کارنامہ کسی عام آدمی کا نہیں کسی خاص طبقے کا ہے اور اسے دنیا کے خاص الخاص طبقوں میں بہترین کارکردگی کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ تاہم مجھے آخر میں صرف یہ کہنا ہے کہ اچھا اور برا‘ دونوں وقت گزر جاتے ہیں تاہم ان کی مٹھاس یا تلخی باقی رہ جاتی ہے۔ 

ہم سب کو چاہئے خواہ ہمارا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو کہ کسی کو ایسا زخم نہ لگائیں جو مندمل ہونے کے بعد بھی اس کا درد جاگ اٹھے اور یوں اسے زخم لگانے والا وہ شخص ایک بار پھر یاد آ جائے جس نے یا جنہوں نے یہ زخم لگایا تھا۔ 

بھلے وقتوں میں انسان اپنوں اور غیروں کی بہت سی تلخ یادیں بھول جاتا ہے لیکن جب کوئی برے وقت سے نبرد آزما ہو، اس وقت اسے پھول بھی مارا جائے تو کانٹے کی چبھن محسوس ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے سب اپنوں اور غیروں کی خطائیں معاف کرے اور ان پر اپنے رحم کا سایہ قائم رکھے۔ (ختم شد)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین