• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں مطلوبہ مقدار میں گندم کی موجودگی، فلور ملوں کو باقاعدگی کے ساتھ ان کی ضرورت کے مطابق فراہمی اور معمول کے مطابق وہاں گندم کی پسائی کے باوجود دکانوں سے آٹا کیوں غائب ہے؟ متعلقہ ذمہ داروں پر اس سوال کا جواب لازم ہے۔ حکومت نے آٹے پر کوئی نیا ٹیکس بھی عائد نہیں کیا تو پھر فلور ملوں کے پاس اس کی قیمتیں بڑھانے کا کیا جواز ہے؟ اس وقت ملک کے طول و عرض میں آٹے کا جو بحران دکھائی دے رہا ہے اور اس کی قیمتیں بےلگام ہوتی جا رہی ہیں، اس سے عوام کی بےچینی میں اضافہ ہونا ایک منطقی بات ہے۔ ان حالات سے موقع پرست عناصر کو شہ مل رہی ہے جس کی بنا پر حالات کوئی بھی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ مارکیٹ کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ اگر فلور ملیں یکطرفہ طور پر آٹا پانچ روپے فی کلو مہنگا کر رہی ہیں تو دکاندار اس سے بھی زیادہ اضافہ کر رہے ہیں۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا پر پوری کی جا رہی ہے جہاں آٹے کی قیمتوں کو مزید بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ حکام کو تمام تر زاویوں سے صورت حال کا جائزہ لینا چاہیے۔ اس ضمن میں فلور مل مالکان کا پچھلے دنوں یہ موقف سامنے آیا تھا کہ حکومت بجلی کے فی یونٹ نرخ بتدریج بڑھا رہی ہے اور مختلف مدوں میں ٹیکسوں کا حجم بڑھ رہا ہے جس سے بجلی کے بل کئی گنا زیادہ آرہے ہیں۔ یہ رپورٹ بھی منظر عام پر آچکی ہے کہ بہت سی فلور ملیں سرکاری کوٹہ اوپن مارکیٹ میں فروخت کر رہی ہیں جو افغانستان اسمگل ہو جاتا ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے دو دن کے بعد یہ نوید سنائی ہے کہ حکومت نے آٹے کی قیمتیں معمول پر لانے کیلئے سرکاری کوٹہ فروخت کرنے والی ملوں اور فرائض سے غفلت برتنے والے افسران کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے جو خوش آئند بات ہے، تاہم ضروری ہے کہ تمام پہلوئوں کا جائزہ لے کر معاملے کا مستقل حل نکالاجائے۔


اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین