• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی گھر میں بچّے کی پیدایش نہ صرف بہت خوش گوار موقع ہوتا، بلکہ ہر فرد ہی نئے مہمان کے استقبال کے لیےخاصا پُرجوش نظر آتا ہے، مگر کیا کبھی کسی نے نوٹ کیا کہ بعض اوقات بچّے کی پیدایش کے موقعے پر ماں یا باپ کا روّیہ بے حد عجیب سا ہوجاتا ہے۔ 

مثلاً بہت اُداس، چڑاچڑا یا پریشان ہوجانا۔درحقیقت یہ بھی ایک ذہنی مسئلہ ہے، جو براہِ راست پیدایش کے عمل سےمشروط ہوتا ہے، اِسےطبّی اصطلاح میں پوسٹ پارٹم ڈیپریشن "Postpartum Depression"کہا جاتا ہے،جب کہ ڈی ایس ایم فائیو یعنی ڈائیگنوسٹک اینڈ اسٹیٹسٹیکل مینوئل آف مینٹل ڈس آرڈرز ) (Diagnostic And Statistical Manual Of Mental Disorders) میں اسے ڈیپریسیو ڈس آرڈر وِد پیری پارٹم آن سیٹ (Depressive Disorder With Peripartum Onset)کے نام سے شامل کیا گیا ہے۔

اس کی علامات میں نیند اور بھوک کی بے ترتیبی، اُداسی، جھنجھلاہٹ، مایوسی، اینزائٹی کے ساتھ(یہ سب عمومی ڈیپریشن کی علامات ہیں) نومولود سے متعلق پریشان رہنا، اس کی مناسب دیکھ بھال کرنے سے خود کو قاصر محسوس کرنا، اپنی شناخت کھونے کا احساس وغیرہ شامل ہیں۔اس کی شدید نوعیت میں ماں خود ہی اپنے بچّے کو مار بھی سکتی ہے، جس کے لیے انفینٹیسائیڈ(Infanticide)کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

اگرچہ اس کی تاحال حتمی وجہ دریافت نہیں کی جاسکی، مگر کچھ وجوہ ضرور ہیں۔ ان وجوہ میں جنہیں زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے، ان میں مختلف ہارمونز مثلاً ایسٹروجن، پروجیسٹرون، تھائی رائیڈ ہارمونز اور کورٹی سول وغیرہ کا غیر متوازن ہوجانا ہے، مگر اس میں کچھ تمدّنی عوامل بھی شامل ہیں۔

جیسے والدین بننا بذات خود ایک بہت بڑی ذمّے داری ہے۔ ہمارے مُلک میں جہاں آدھی سے زائد آبادی خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسرکر رہی ہے،وہیں کسی حد تک خاندان میں اضافہ معاشرے میں عزّت قائم رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے،جب کہ حقیقتاً والدین معاشی طور پر اس قابل نہیں ہوتے کہ اپنے بچّے کی تمام تر ذمّے داریاں بخوبی ادا کرسکیں۔

جیسےاس کی بہتر دیکھ بھال کرنا ، صحت کا خیال رکھنا، موسم کی مناسبت سے غذا اور لباس کی فراہمی، معیاری تعلیم دلوانااور بچّے کو وہ سب کچھ مہیا کرنا، جو اسے (والدین کی سوچ کے مطابق) اپنے ہم عُمروں میں سبکی سے بچاسکے۔ یہ وہ عوامل ہیں، جو حمل کے آغاز ہی سے والدین کو پریشان کرنے لگتے ہیں۔

البتہ ماں کی پریشانی اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے،کیوں کہ اگربچّہ گورا ہو یا کالا، موٹا ہو یا کم زور، اس کے جسم پر بال زیادہ یا سَر پر کم ہوں،توان سب کی وجہ ماں ہی کو تصوّر کیا جاتا ہے اور اگرخاندان کی خواہش کے برخلاف لڑکی پیدا ہوجائے، تب تو ماں اور بھی زیادہ قصور وار ٹھہرائی جاتی ہے۔

بلاشبہ یہ وہ مسائل ہیں، جن کے حوالے سے خاتون حمل ٹھہرتے ہی صرف سوچنا ہی نہیں، پریشان ہونا بھی شروع کر دیتی ہے۔ مغربی مُمالک میں ان مسائل کا باقاعدہ طور پر ریکارڈ مرتّب کیاجاتا ہے کہ آبادی کا کتنے فی صد حصّہ ان مسائل کا شکار ہے اور ان کا حل کیا ہوسکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے مُلک میںجہاں صرف 10فی صد آبادی کو صحت کی معیاری سہولیتں میسّر ہیں،وہیں ذہنی صحت کی طرف توجّہ دینے کا شعور ہے، نہ جیب میں سکت۔

امریکا میں کیےجانے والے ایک سروے کے مطابق وہاں0.5سے61فی صد زچگیوں میں خواتین ڈیپریشن کی ان علامات کا شکار ہوجاتی ہیں، جوچند دِنوں سے لے کر قریباً دو ہفتوں تک ظاہر ہوتی ہیں۔اگر یہ علامات دو ہفتے بعد بھی برقرار رہیں، تو پھران خواتین میں پوسٹ پارٹم ڈیپریشن کا علاج شروع کردیا جاتا ہے۔ 

پوسٹ پارٹم ڈیپریشن چاہے ماں کو ہو یا باپ کو ،دونوں کا براہِ راست اثر نومولود کی شخصیت پر پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں بچّہ بھی بچپن کے ڈیپریشن کا شکار ہوسکتا ہے یا آگے چل کر غیر متوازن شخصیت کا حامل ہوسکتا ہے، جنہیں ہمارے یہاں عموماً ضدّی، بدتمیز اور جھگڑالو کہا جاتا ہے۔ دراصل پوسٹ پارٹم ڈیپریشن کے شکار والدین،خواہ دُنیا کے کسی بھی خطّے سے تعلق رکھتے ہوں،اُن کے لیے اپنی پریشانی اور غصّہ اتارنے کا آسان ہدف یہی نومولود ہوتا ہے۔ 

افسوس ناک امر یہ ہے کہ دُنیا بَھرمیں چند مُمالک کے علاوہ زیادہ تر مُلک ذہنی مسائل کی جانب کم توجّہ دیتے ہیں، جن میں کئی ترقی یافتہ مُمالک بھی شامل ہیں۔مثلاً چین، جاپان اور امریکا کا شمار ان مُمالک میں سرِفہرست کیا جاتا ہے، جہاں ذہنی مسائل میں روز افزوںاضافہ ہورہا ہے۔اور یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان مُمالک کی ساری توجّہ مادّی ترقّی پر ہے، ذہنی مسائل کے حل کی جانب توجّہ بہت کم ہے۔

اگر پاکستان کی بات کی جائے تو ہمارےیہاں میں تو ویسے ہی عمومی صحت کی طرف توجّہ کا کچھ خاص رجحان نہیں اور پھر ذہنی صحت کو تو کسی شمار ہی میں نہیں رکھا جاتا۔ نفسیاتی عوارض ،خاص طور پر ڈیپریشن کوقابلِ علاج ہی نہیں سمجھا جاتا اور اگر پوسٹ پارٹم ڈیپریشن کی بات کریں، تو شاید چند ایک افرادہی ایسے ہوں گے، جو اس مرض سے متعلق معلومات بھی رکھتے ہوںگے۔ 

ماہرین ِنفسیات پوسٹ پارٹم ڈیپریشن کے علاج کےلیے عموماً اینٹی ڈیپریسنٹس (Anti Depressants) ادویہ تجویز کرتے ہیں، مگر اس کے ساتھ ماں باپ بننے والے جوڑےکی سپورٹ بھی بہت ضروری ہے،کیوں کہ اگر اہلِ خانہ کا روّیہ ان کے ساتھ درست نہ ہو، تو منہگی سے منہگی ادویہ بھی فائدہ مند ثابت نہیں ہوتیں۔یاد رکھیے،بچّے صرف والدین ہی کی نہیں، بلکہ خاندان اور معاشرے کی بھی ذمّے داری ہیں،لہٰذا اگر آپ والدین کی مدد نہیں کرسکتے، تو کم ازکم اولاد کی ہر غلطی پر انہیں موردِ الزام بھی نہ ٹھہرائیں۔

اگر آپ کو ان کے تجربے میں کوئی کمی محسوس ہورہی ہو، تو مناسب طریقے سے انہیں سمجھائیں، نہ کہ ناقص تربیت کا الزام دیں۔واضح رہے کہ الزام تراشی کا عمل ایک چکر کی طرح معاشرے سے باپ، باپ سے ماں اور ماں سے اولاد میں منتقل ہوتا ہے اور یوں کبھی نہ رُکنے والے سلسلے کا آغاز ہو جاتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ رویّوں کی درستی سے بھی بہت سے امراض کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ (مضمون نگار،معروف سائیکولوجسٹ ہیں)

مضمون نویس معالجین توجّہ فرمائیں!!

سنڈے میگزین کے سلسلے’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘میں لکھنے کے شائق، معالجین سے درخواست ہے کہ اپنے مضامین کے ساتھ، اپنی پاسپورٹ سائز واضح تصاویر بھیجیں اور مکمل تعارف اور رابطہ نمبر بھی لازماً تحریر کریں۔ہماری پوری کوشش ہے کہ اپنے اسی سلسلے کے ذریعے قارئین کو مختلف امراض اور عوارض سے متعلق جس قدر بہترین، جامع اور درست معلومات فراہم کرسکتے ہیں، ضرور کریں، مگر بعض اوقات ڈاک سے موصول ہونے والی کچھ تحریروں میں لکھی جانے والی مخصوص طبّی اصطلاحات یا کسی ابہام کی تصحیح یا درستی کے لیے مضمون نگار سے براہِ راست رابطہ ضروری ہوجاتا ہے، لہٰذاتمام مضمون نویس اپنی ہر تحریر کے ساتھ اپنا رابطہ نمبر ضرور درج کریں۔اپنی تحریریں اس پتے پر ارسال فرمائیں:

ایڈیٹر،سنڈے میگزین، صفحہ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘روزنامہ جنگ، شعبۂ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ ، کراچی۔

ای میل: sundaymagazine@janggroup.com.pk

تازہ ترین