بابائے موسیقی جی اے چشتی کا نام فلمی موسیقی میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ انہیں پاکستان کی پہلی پنجابی فلم ’’پھیرے‘‘ میں موسیقی مرتب کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس فلم کے تمام گانے انہوں نے ایک ہی دن میں کمپوز کرکے ریکارڈ کروائے، جو فلمی تاریخ میں ایک ایسا کارنامہ ہے، جسے آج تک کوئی دوسرا موسیقار انجام نہیں دے پایا۔ انہوں نے ماچس کی ڈبیہ پر اپنی مخروطی انگلیوں کی مدد سے اس فلم کے کچھ گیتوں کی طرزیں بناکر لوگوں کو ورطہ حیرت میں مبتلا کردیا۔
فلم ’’پھیرے‘‘ جب ریلیز ہوئی تو اس فلم کے نغمات نے ہر طرف دھوم مچادی۔ مینوں رب دی سوں تیرے نام پیار ہوگیا اے چناں سچی مچھی، جسے گلوکارہ منور سلطانہ نے گایا۔ اپنے بہترین میوزک کی بدولت اس فلم نے لاہور کے پیلس سنیما میں مسلسل 25 ہفتے چل کر سلور جوبلی منائی۔ اداکار نذیر اور اداکارہ سورن لتا نے اس فلم میں ہیرو ہیروئن کے کردار کیے۔
فن موسیقی میں بابا چشتی کے نام سے شہرت پانے والے موسیقار 1904ء مشرقی پنجاب کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام غلام احمد تھا۔انہوں نے سب سے پہلے 1939ء میں پنجابی فلم سوہنی مہینوال کی موسیقی دے کر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ متحدہ ہندوستان میں انہوں نے اندازاً 16 کے قریب فلموں میں موسیقی دی۔
1946ء میں وہ لاہور آگئے۔ 1949ء میں انہوں نے اردو فلم شاہدہ کی موسیقی دی۔ اس فلم میں ان کے ساتھ ماسٹر غلام حیدر کی بھی شراکت تھی۔ تقریباً 150 فلموں کی موسیقی دینے والے اس موسیقار کے بے شمار گیت عوامی سطح پر مقبول ہوئے۔ ان کا نام اس قدر پھیلا ہوا ہے کہ اسے کسی مختصر مضمون میں سمیٹنا ایک ناممکن سا عمل ہے۔ انہوں نے زیادہ تر پنجابی فلموں کی موسیقی دی۔
بہ طور موسیقار 25 اردو فلمیں ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ 1954ء میں ریلیز ہونے والی اردو فلم سسی میں ترتیب دی ہوئی دُھنوں پر چربہ سازی کا الزام بھی لگا، جو دُرست تھا۔ انہیں فلم کا یہ گیت ’نہ یہ چاند ہوگا نہ تارے رہیں گے‘ بھارتی فلم شرط کے گانے کا چربہ تھا۔
اس طرح 1955ء میں ریلیز ہونے والی گولڈن جوبلی فلم ’’نوکر‘‘ کی مشہور لوری ’راج دلارے میری اکھیوں کے تارے‘ بھارتی فلم جیون جیوتی سے لی گئی تھی۔ اسی سال نمائش ہونے والی اردو فلم ’طوفان‘ کا ایک گیت جسے فضل حسین نے گایا تھا ’آج یہ کس کو نظر کے سامنے پاتا ہوں‘ بابا چشتی کا ایک شاہ کار گیت ثابت ہوا۔ 1956ء میں پنجابی فلم دُلابھٹی کے گانوں نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ ان گانوں میں ’پیار کرلے آجا پیار کرلے‘ اور ’واسطہ ای رب راتو جاویں وے کبوترا‘ کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔ بابا چشتی کا شمار تیز رفتار موسیقار کے طور پر ہوتا تھا۔
وہ دُھنیں اس رفتار سے بناتے تھے، جس کا تصور کوئی اور موسیقار نہیں کر سکتا تھا۔ 60ء کی دھائی میں ان کا کام بہت تیز تر رہا۔ اس دور میں انہوں نے زیادہ تر نورجہاں کی آواز کو اپنی دھنوں کے لیے موزوں سمجھا۔ نورجہاں نے جب اداکارہ فردوس پر اپنی پلے بیگ نہ کرنے کا اعلان کیا تو بابا چشتی نے رونا لیلے کی آواز میں فلم ذیلدار کا ایک گیت ’دو دل ایک دوجے کو لوں دور ہوگئے‘ ریکارڈ کروایا جو اس قدر سپرہٹ ہوا کہ گلی کوچوں اور سڑکوں پر اسی گیت کی آواز گونجی تھی۔
یہ گانا اداکارہ فردوس پر فلمایا گیا تھا۔ اس نغمے کو سن کر نورجہاں بھی حیرت میں مبتلا ہوگئی تھیں۔ اس مقبول گانے کے ایک لاکھ سے زائد گراموفون ریکارڈ فروخت ہوئے تھے۔ فلم چن مکھناں کا ایک گیت ’اوچن میرے مکھناں‘ ان کا ایک اور شاہ کار گیت کہلایا،جسے ہر دور میں مقبولیت حاصل رہی۔ موجودہ دور میں کئی سنگرز نے اس نغمے کو گاکر شہرت حاصل کی۔