ڈاکٹرصفدر محمود نے جنگ کی 3مارچ کی اشاعت میں شائع ہونے والے اپنے ایک کالم بعنوان ” فیوڈل کلچر اور آئندہ انتخابات“میں ایک انتہائی اہم موضوع پر قلم اٹھایاہے۔ڈاکٹرصاحب نے قطعی درست طور پر فرمایا ہے کہ کئی صدیوںتک بادشاہوںاور مغلیہ خاندان کی رعایا رہنے کے بعد اور پھر برطانوی حکومت کی ایک صدی سے زیادہ غلامی کے نتیجہ کے طو ر پر ہمارے معاشرے میں فیوڈل کلچر اور جاگیر دارانہ سوچ غالب آچکی ہے ۔ڈاکٹر صاحب نے مذکورہ مضمون میں پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں کی قیادت ،سوچ اور سیاست کا تجزیہ بھی کیا ہے جس میں ایم کیوایم بھی شامل ہے ۔
ڈاکٹر صاحب اپنے مضمون میں یہ اعتراف تو کر تے ہیں کہ ایم کیوایم موجودہ فرسودہ نظام کی تبدیلی کی علمبر دار ہے تاہم ایم کیوایم کی سیاست کے حوالے سے انہوں نے کسی امید کا اظہار نہیں کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ” ویسے تو ایم کیوایم بھی اسی تبدیلی کی علمبردار ہے ۔ ایم کیوایم میں مڈل کلاس اور پڑھے لکھے طبقوں کی نمائندگی غالب ہے لیکن اوّل تویہ جماعت ملکی سطح پر اپنا رنگ نہیں جماسکی ۔ دوسرے ایم کیوایم کو جمہوری اقدار کے دعوﺅں کے باوجود ایک لسانی جماعت سمجھا جاتا ہے اور سب سے اہم یہ کہ ایم کیوایم کو اس مصلحت پر ست سیاست نے بے حد نقصان پہنچایا ہے ۔ ایم کیوایم فیوڈل کلچر کے خاتمے کی آواز رکھتی ہے لیکن ہمیشہ فیوڈل کلچر کی نمائندہ قوتوں اور جماعتوں کی اتحادی رہی ہے“ ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک جانب تو ڈاکٹر صاحب اس بات کا اقرار کر رہے ہیں کہ پاکستان میںجمہوریت و سیاسی عمل ، فیو ڈل کلچر کو توڑنے میں ناکام رہا ہے اور ملک پرچند خاندانوں نے اپنا تسلط جمایا ہوا ہے جبکہ دوسری جانب وہ اس بات کے شاکی ہیں کہ ایم کیوایم جیسی غریب ومتوسط طبقہ کی جماعت ملکی سطح پر اپنا رنگ نہیں جماسکی !اس بات کا جواب تو ڈاکٹر صاحب ہی دے سکتے ہیں کہ جب فیوڈل نظام اس قدر مضبوط اور طاقتو ر ہے کہ ملک کی 65سالہ تاریخ میں اسے کوئی معمولی سی گزند تک نہیں پہنچ سکی تو اکیلی اسے ایم کیوایم کس طرح شکست دیکر قومی سطح پر اپنا لوہا منواسکتی ہے ؟ ڈاکٹر صاحب کا یہ استدلا ل بھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایم کیوایم کو جمہوری اقدار کے دعوﺅں کے باوجود ایک لسانی جماعت سمجھا جاتا ہے اوّل تو اس بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ ایم کیوایم جمہوری اقدار کے محض دعوے نہیں کرتی بلکہ اس نے 1987سے ہونے والے تمام انتخابات میں حصہ لیاہے اور غیر معمولی کامیابیاں حاصل کر کے جمہوری اقدار پر اپنے بھر پور یقین کاعملی مظاہرہ کیا ہے ۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ملک گیر جماعت بننے کی تمام تر کوششیں کرنے کے باوجود بعض عناصر ایم کیوایم کو لسانی جماعت سمجھتے ہیںتو اس کا جواب یہ ہے کہ متحدہ قومی مومنٹ کا نام اسکی قومی سوچ کی عکا سی کرتا ہے، اسکا پیغام قومی ہے، اس کامنشور کسی ایک طبقہ آباد ی کیلئے نہیں بلکہ تمام پاکستانیوں کے لئے ہے ، ایم کیوایم کی شاخیں پورے ملک میں موجود ہیں اور ایم کیوایم کی مرکزی قیادت میں تمام زبانیں بولنے والے پاکستانی شامل ہیں ۔ایم کیوایم نے تو اپنی جانب سے خود کو قومی جماعت ثابت کر دیا ہے تاہم کچھ عناصر اب بھی اسے ایک لسانی جماعت ثابت کرنے پر مصر ہیں تو اس میں قصور ایم کیوایم کا نہیں ہے ۔
ڈاکٹر صاحب اس بات پر بھی معتر ض ہیں کہ ایم کیوایم فیوڈل کلچر کی نمائند ہ جماعتوں کی اتحادی رہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی جانب سے جو خود کو پاکستانی تاریخ کا طالب علم قر ار دیتے ہیں یہ اعتراض سمجھ سے بالا تر ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے خوداپنے مضمون میں جابجا یہ اعتراف کیا ہے کہ پاکستانی سیاست اور اقتدار مکمل طو پر جاگیر دارانہ اور موروثی نظام کے شکنجہ میں ہیں ۔ ظاہر ہے کہ جو با اثر افراد ملک پر قابض ہیں وہی افراد ، ان کے اہل خانہ اور اولادیں ملکی سیاسی جماعتوں کے سیا ہ وسفید کی بھی مالک ہیں چنانچہ ملک میں جب بھی انتخابات ہوتے ہیں تو ایم کیوایم کے سیاسی زیر اثر سندھ کے شہری علاقوں کے سواپورے ملک سے یہ بااثر افراد ہی منتخب ہوکر اسمبلیوں میں پہنچتے ہیںاور حکومت قائم کرتے ہیں ۔اگر ملک میں جمہوری حکومت کے قیام اور استحکام کیلئے ایم کیوایم ان منتخب نمائندوں کے ساتھ اتحاد نہ کرے تو کس کے ساتھ کرے ؟ اگر ایم کیوایم میاں نواز شریف سے اتحاد کرتی ہے تو اس پر صنعت کاروں گٹھ جوڑ کا الزام لگایا جاتا ہے ، پیپلز پارٹی سے اتحاد کرتی ہے اس پر وڈیروں سے ساز باز کا الزام لگایا جاتا ہے اور اگر حکومت سے علیحدگی اختیار کر تی ہے تو اس پر جمہوریت کو پٹر ی سے اتار نے کی سازش کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ ایک ایسی پارلیمنٹ میں جہاں اکثریت ہی وڈیروں اور جاگیر داروں کی ہو وہاںان کے علاوہ اتحاد کسی اور سے کس طرح کیا جاسکتا ہے ؟
جو لوگ ایم کیوایم کی حکومت میں شراکت پر اعتراض کرتے ہیں میں ان کی خدمت میں یہ ضرورعر ض کرنا چاہوںگا کہ جمہوریت صرف حزب اختلاف میں بیٹھنے کانام نہیں ہے ۔انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے حکومت بنانا یا حکومت وقت کے ساتھ اتحاد کرنا بھی اسی قدر جمہوری عمل ہے جس طرح حزب اختلاف کی سیاست کرنا۔ ایم کیوایم نے سندھ کے شہری علاقوں سے غریب اور متوسط طبقہ کے سینکڑوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اقتدار کے ایوانوں میں بھیج کر ملک کے عوام کیلئے یہ عملی مثال قائم کر دی ہے کہ وہ بھی ایم کیوایم کی طرح اپنی صفوںسے قیادت نکال کر فیوڈل کلچر کو چیلنج کر سکتے ہیں اب تمام تر لسانی ،علاقائی اور گروہی متعصبانہ اور اختلافات سے بالا تر ہو کر ایم کیوایم کے پیغام کو سمجھنا اور اسکی تقلید کرنا ان تمام لوگوں کی ذمہ داری ہے جو ملک سے فیوڈل کلچر کا خاتمہ اور عوام کی حقیقی حکمرانی قائم کرنا چاہتے ہیں ۔