• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایران کے صدر حسن روحانی نے حال ہی میں ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ ایران 2015سے پہلے کی رفتار سے زیادہ تیز رفتاری سے یورنیم کی افزودگی کا عمل شروع کردے گا۔ اگر امریکانے ایران پر 2018میں جو اقتصادی پابندیاں عائد کی تھیں وہ ہٹالی جائے تو ہم جوہری معاہدے کی پاسداری کرسکتے ہیں۔ ایران کے سپریم کمانڈر اور سربراہ خامنائی نے بھی یورپی ممالک برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے ایک اہم بیان میں کہا کہ ان کے فوجی بھی خطرے میں ہیں جو امریکی فوجیوں کے ساتھ عراق میں ہے، ہمیں یورپ بار بار نہ ٹوکے کہ جوہری معاہدے کی پاسداری کرو۔

واضح رہے کہ امریکا اور ایران کے مابین جو، جوہری معاہدے طے ہوا تھا وہ جنوری 2016سے نافذ العمل ہوا جس کو ’’مشترکہ جامع منصوبہ برائے عمل‘‘ کہا جاتا ہے جس میں یورپی ممالک بھی فریق ہیں اور یورپی یونین کو شدید تحفظات لاحق ہیں کہ اگر ایران نے جوہری بم تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی تو پھر وہ اپنی سلامتی اور استحکام کے لئے کوئی بھی قدم اُٹھاسکتا ہے۔ 

اس حوالے سے گزشتہ دنوں یورپی یونین کے وزراء خارجہ کا ہنگامی اجلاس برسلز میں منعقد ہوا جس میں تمام ممالک کے نمائندگان کی رائے یہی تھی کہ ایران پر زیادہ دباؤ ڈالا جائے کہ وہ معاہدہ کی پاسداری کرےاور اس کو قائم رکھے،مگر ایران کا موقف بالکل سادہ ہے کہ امریکا نے 2018میں معاہدہ سے الگ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ایران پر مزید سخت اقتصادی پابندیاں عائد کردیں۔

ایرانی صدر نے ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ یہ جوہری معاہدہ ایران، امریکا، روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے مابین طے پایا تھا۔ امریکا نے جب معاہدہ توڑدیا اور ایران پر پابندیاں عائد کردیں تو پھر یہ یورپی ممالک کیوں ہم پر دبائو ڈال رہے ہیں۔ اگر واقعی یورپی ممالک معاہدہ کے ساتھ مخلص ہیں تو امریکا پر دبائو ڈالیں کہ وہ پابندیاں ختم کرے۔ ایران نے طے کرلیا ہے کہ امریکی رویہ یہی رہا اور ایران کو دھمکیاں ملتی رہیں تو ہم جوہری بم ضرور بنائیں گے۔ 

ایران کا جوہری پروگرام صرف ایرانی ٹیکنالوجی پر استوار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران بین الاقوامی جوہری معائنہ کار ایجنسی سے کئے ہوئے معاہدے کی پاسداری کرے گا۔ یورپی ممالک نے پھر ایک بار مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ، ایران تحمل کا مظاہرہ کرے، معاہدہ پر قائم رہے، خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر سب کو تشویش لاحق ہے۔ کیونکہ مشرق وسطیٰ مزید کسی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس خطے میں جنگ نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ دنیا کے لئے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔

محقق آنسہ بصری جو رائل متحدہ ریسرچ سینٹر کی سربراہ ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک کو ایران کے جوہری پروگرام پر بہت زیادہ تشویش ہے مگر ایران نے جو دھمکی دی ہے کہ وہ دوبارہ جوہری پروگرام پر کام شروع کررہا ہے تو یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ ایران یورنیم کی افزدوگی میں کس سطح پر کھڑا ہے۔ اس کی صلاحیت کا درست اندازہ لگانا زیادہ ضروری ہے۔ اس ضمن میں یورپی یونین کے اراکین ممالک نے بین الاقوامی جوہری معائنہ کار ایجنسی کو لکھا ہے کہ وہ ایرانی تنصیبات کا معائنہ کرکے ہمیں درست صورت حال سے آگاہ کرے۔

گزشتہ دنوں یورپی رہنمائوں سے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کی ملاقات ہوئی ،جس میں جوہری پروگرام پر زیادہ بات چیت ہوئی۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے موقف کو دہرایا کہ پہل امریکا کرے اور پابندیاں ختم کرے یا نرم کردے۔ یورپی یونین کے وزیرخارجہ نے بھی اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ کی سلامتی اور استحکام کے لئے امن بہت ضروری ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے حالیہ بیان میں کہا کہ امریکا نے 2018میں معاہدہ منسوخ کردیا تھااگر ایران اقتصادی پابندیوں سے نجات چاہتا ہے تو اس کو نیا جوہری معاہدہ کرنا پڑے گا۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے صدر ٹرمپ کے حالیہ بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ، ایران کوئی نیا معاہدہ نہیں کرے گا، امریکا نے پہلے ہی اقتصادی پابندیاں عائد کردی تھیں۔ 

ایران نے ایک بار پھر یورپی یونین کے ممالک سے کہا ہے کہ ایرانی جنرل قاسم کی ڈرون حملے میں ہلاکت اور امریکا کی نئی دھمکیوں سے ایرانی عوام اور حکومت میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ایرانی عوام جنرل قاسم کی ہلاکت کا بدلہ چاہتے ہیں۔ اس طرح پورا خطہ کشیدگی کا شکار ہے ان حالات میں یورپی رہنمائوں کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہئے۔ اگر یورپ کو ہمارے جوہری پروگرام پر شدید تحفظات ہیں تو پھر ایران پر عائد پابندیاں ختم کرائیں۔

دوسری جانب اسرائیل کے وزیراعظم نتن یاہو نے ایک اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہاکہ، مغربی طاقتوں کو ایران کے جوہری پروگرام سے خطرہ ہے ان کو ایران پر کڑی نظر رکھنی چاہئے کہ وہ جوہری پروگرام پر کام شورع نہ کردے اگر وہ پروگرام جاری رکھنے پر اصرار کرتا ہے تو ایران پر مزید پابندیاں عائدکردی جائیں۔ اسرائیل چوکنا ہے اور ہم کسی بھی قیمت پر ایران کو جوہری بم نہیں بنانے دیں گے۔ اس سے قبل اسرائیلی وزیراعظم نے ایران پر الزام لگایا تھا کہ ایران جوہری صلاحیت حاصل کرنے کے پروگرام کے بارے میں ثبوتوں کو پوشیدہ رکھتا رہا ہے۔ 

امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کے سامنے جو شرط رکھی ہے کہ اگر وہ نئے معاہدہ کے لئے راضی ہوتا ہے تو اس پر سے پابندیاں ہٹالی جائیں گی مگر ایران اس شرط کو قبول کرنے پر اس لئے راضی نہیں ے کہ جوہری معاہدے کے ساتھ ساتھ امریکا ایران کے بلیسٹک میزائل کے تجربات بھی روکنا چاہتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایران نہ جوہری بم بنائے نہ دور مار میزائل تیار کرسکے۔ اس لئے ایران نے یکسر انکار کردیا۔ 

ایران کی دھمکی کہ وہ دوبارہ جوہری پروگرام شروع کررہا ہے اس سے امریکا، اسرائیل، یورپی یونی ناور امریکا کے خلیجی ریاستوں کے اتحادی پریشان ہیں کہ ایران ضرور جوہری پروگرام کو دوبارہ شروع کردے گا اور اپنے ہمدرد دوست ممالک سے مدد طلب کرے گا ،کیونکہ ایران اور روس کے مابین بہت سے معاہدے ہیں۔ ایران کے جوہری پروگرام کی تاریخ یہ ہے کہ 1950میں سابق شاہ ایران رضا شاہ پہلوی نے اس پروگرام کو شروع کرنے کی ٹھانی اور ’’یو ایس ایٹم برائے امن‘‘ کے پروگرام کے تحت یہ پروگرام شروع کیا گیا۔ مگر 1979میں شاہ کا تختہ الٹنے کے بعد انقلابی حکومت نے زیادہ توجہ نہیں کی مگر ایران اور عراق کی طویل جنگ کے بعد ایرانی انقلابی حکومت نے جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کردی۔ 

اس کے لئے ایران نےاپنے پڑوس سمیت دو بڑی طاقتوں سے معاونت حاصل کی۔ ارجنٹینا سے جوہری ہیوی واٹر اور یورنیم کی فراہمی کا سلسلہ شروع ہوا،تب سے امریکا اور یورپی ممالک نے تشویش کا اظہار شروع کردیا۔ امریکا نے ارجنٹینا سے یورنیم کی فراہمی بند کرادی۔ تب شور اٹھا کہ ایران جوہری بم بنانے کے لئے جدوجہد کررہا ہے۔ ایران نے بار بار اصرار کیا کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لئے ہے۔ ایران ایٹم بم تیار نہیں کررہا ہے، مگر اسرائیل اور امریکی میڈیا میں ایرانی جوہری پروگرام کو خوب اچھالا گیا۔ تب سابق امریکی صدر باراک اوباما نے ایران سے جوہری پروگرام روکنے کے لئے معاہدہ کی کوششیں شروع کردیں۔ 

ایران پر پہلے ہی امریکا کی اقتصادی پابندیاں جن کو ہٹانے یا نرم کروانے کے لئے ایران نے معاہدہ کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور مذاکرات کا طویل سلسلہ وراز ہوا، اس کی سب سے زیادہ اسرائیل نے مخالفت کی اسرائیل کا موقف تھا کہ معاہدہ کرنے کے بعد بھی ایران اپنا جوہری پروگرام منسوخ نہیں کرے گا۔ اس حوالے سے امریکی صدر اوباما اور اسرائیلی وزیراعظم کے مابین شدید کشیدگی پیدا ہوئی۔ دوسرے لفظوں میں امریکا اور اسرائیل کے مابین تعلقات میں سردمہری کر آئی۔ 

بعدازاں صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو پہلے ہی سے ایران کے مخالف تھے اور معاہدہ کو امریکی سابق صدر کی غلطی سے تعبیر کرتے تھے۔ انہوں نے مئی 2018میں معاہدہ منسوخ کرنے کا اعلان کردیا۔ اس حوالے سے ایران سمیت دیگر عالمی طاقتوں نے بھی اپنا سخت ردعمل ظاہر کیا جو اس معاہدہ میں فریق ہیں۔ اب ایران دھمکی دے چکا ہے کہ وہ جوہری پروگرام دوبارہ شروع کررہا ہے۔

تازہ ترین