دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ممالک میں جرمنی اور جاپان سرفہرست رہے۔ دونوں اس جنگ میں ایک دوسرے کے اتحادی بھی تھے۔ جنگ کے خاتمے کے بعد کس طرح جرمنی میں پرورش پانے والی دو نسلیں اس جنگ سے متاثرہ رہیں، وہاں کے ادیبوں اور تخلیق کاروں نے ان سماجی اثرات کو اپنے اپنے طریقے سے قلم بند کیا۔ فکشن کے طور سے بھی تاریخ کو محفوظ کیا گیا۔
اسی سلسلے میں لکھا گیا ایک جرمن ناول’’دی ریڈر‘‘ ہے، جس کے مصنف ’’برنہرڈ شلینک‘‘ ہیں، جنہوں نے جنگ کے بعد کے جرمنی اور اس کے سماج کو اپنے انداز میںناول کی شکل میں تخلیق کیا، جرمن نسلوں پر ہونے والے اثرات کی عکاسی کی اور ہولوکاسٹ کے جرائم کی نفسیات کو بطور تمثیل پیش کیا۔
اس ناول نے جرمنی سمیت دنیا بھر بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ کسی بھی جرمن ناول کے لیے یہ پہلا موقع تھا، جب امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی مقبول کتابوں کی فہرست میں اسے بھی شامل کیا گیا، پھر متعدد جرمن اور عالمی ادبی ایوارڈ بھی اس ناول کے حصے میں آئے۔ اس پربننے والی فلم’’دی ریڈر‘‘ بھی فلمی دنیا کے اہم ترین ایوارڈ’’آسکر‘‘ کے پانچ شعبوں میںنامزد ہوئی، جن میں سے بہترین اداکارہ کا ایوارڈ برطانوی اداکارہ’’کیٹ ونسلیٹ‘‘ نے اپنے نام کر کے ناول کے اس مرکزی کردار کو فلمی پردے پر امر کر دیا۔
یہ ناول ایک جرمن قانون دان’’مائیکل برگ‘‘ کی داستانِ حیات ہے، جب وہ پچاس کی دہائی میں نوعمر لڑکا تھا، تو کس طرح اس نے شعور کے خالی صفحات پر محبت کے گہرے رنگ بھرے تھے۔ ناول کے مصنف’’برنہرڈ شلینک‘‘ پیشے کے اعتبار سے قانون دان، مدرس اور ناول نگار ہیں۔ ان کے والدین مبلغ اور مدرس تھے، اپنے ادبی سفر کی ابتداجاسوسی کہانیاں لکھنے سے شروع کی۔
ان کی شروعاتی کہانیاں جو تجسس اور جرم وسزا کی ایسی کہانیاں تھیں، پھر یہ ناول نگاری کی طرف آگئے، خاص طور پر اپنے ناول’’دی ریڈر‘‘ میں تاریخی شعور، رومانوی بصیرت اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا۔ اس ناول کو دنیا کی 42 زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ ’’کیرول برائون جینوے‘‘ نے اس ناول کو انگریزی قالب میں ڈھالا۔
مقبول ترین ناول’’دی ریڈر‘‘ کی کہانی پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے، تو منظر نامہ کچھ یوں ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد، جب جرمنی اپنے پیروں پر دوبارہ سے کھڑا ہو رہا تھا، جرمن معاشرہ اپنی جنگی غلطیوں اور انسانیت سوز جرائم کی تلافی کے سلسلے میں اقدامات کر رہا تھا، وہاں کی عدالتیں ایسے افراد کو سزائیں دے رہی تھیں، جنہوں نے سنگین جنگی جرائم کیے تھے۔
اسی ماحول میں ایک کم عمر لڑکے کی زندگی کو بیان کیا گیا کہ وہ کس طرح ایک کامیاب فرد بنتا ہے، لیکن جب وہ کم عمر تھا تو کیسے وہ خود سے بڑی خاتون سے حادثاتی طور پر ملنے کے بعد اس کی محبت میں مبتلا ہوتا ہے، دونوں کے درمیان محبت کی وجہ کتابوں کا مطالعہ ہے۔ وہ خاتون ناخواندہ لیکن ادبیات کی رسیا ہوتی ہے، یہ لڑکا اسے دنیا بھر کے ناول پڑھ کر سناتا ہے، جس میں یونانی ادب کا شاہکار’’اوڈیسی‘‘ روسی ادیب چیخوف کی کہانیوں سمیت کئی دیگر ادبی فن پارے تھے، جن سے ان دونوں کو استفادہ کرتے ہوئے بیان کیا گیا۔
پھر وہ خاتون ایک دن اچانک اسے چھوڑ کر چلی جاتی ہے، یہ لڑکا اسے بہت تلاش کرتا ہے، لیکن وہ اسے ملتی بھی ہے تو عدالت کے کٹہرے میں، جہاں جنگی جرائم کے مرتکب مجرموں کو سزائیں سنائی جا رہی ہوتی ہیں، وہ بطور قانون کے طالب علم، زندگی کے اس پہلو کو دیکھ کر ششدر رہ جاتا ہے، لیکن اُس خاتون کو پتہ نہیں چلتا کہ یہ وہی لڑکا ہے،کیونکہ یہ اس سے ملنے سے گریز کرتاہے البتہ اسے جیل میں معروف کتابیں اپنی آواز میں ریکارڈ کر کر کے بھیجتا ہے۔
جیل میں قید اس خاتون کو یقین ہوتا ہے یہ کوئی اور نہیں بلکہ وہی نوعمر لڑکا ہے، لیکن وہ چاہتی ہے کہ زندگی میں وہ کبھی اس سے ملے اور خود بتائے، لیکن کہانی میں ایک موڑ آتا ہے، جب وہ اس سے ملتا ہے، لیکن اس بات کا اعتراف نہیں کرتا کہ میں وہی نوعمر لڑکا ہوں، اس بات سے دلبرداشتہ ہوکر وہ خاتون اس وقت خودکشی کرلیتی ہے، جب اس کی سزا ختم ہوگئی تھی اور وہ آزاد زندگی گزار سکتی تھی۔
یہ ناول ایسی ہی دردناک کیفیت اور حساس انداز میں لکھا گیا ہے کہ اس کا اختتام قارئین کو اداس کر دیتا ہے۔ جہاں اس ناول کو قارئین نے بے حد پسند کیا گیا، وہیں مغربی ادبی حلقوں میں اس پر سخت تنقید بھی کی گئی، بلکہ اس ناول کی تھیم کو کلچرل پورنوگرافی تک کا سخت عنوان بھی دیا گیا۔ ان تمام باتوں کے باوجود اس کتاب کی مقبولیت میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے، اس پر فلم بننے کے بعد اس کی مقبولیت میں اور زیادہ اضافہ ہوگیا، اس فلم کا اسکرپٹ بھی کتابی شکل میں شائع ہوا اور بڑے پیمانے پر فروخت ہوا۔ اس ناول نے ناول نگار اور فلم کی اداکارہ کی زندگی بالکل بدل دی۔
ناول کے نام ہی سے اس پر فلم بھی بنی، جس میں اس کہانی کو ماخوذ کیا گیا۔ اسکرین پلے ’’ڈیوڈ ہائر‘‘ نے لکھا۔ برطانوی فلم ساز’’اسٹیفین ڈالڈرے‘‘ نے اس فلم کی ہدایات دیں، جبکہ فلم میں معروف برطانوی اداکارہ’’کیٹ ونسلیٹ‘‘ سمیت امریکی، برطانوی اور جرمن اداکاروں نے کام کیا۔
پانچ بار آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد ہونے والی اداکارہ کیٹ ونسلیٹ نے آخرکار اس فلم کے ذریعے فلمی دنیا کا سب سے اہم ایوارڈ حاصل کرہی لیا، اس کو وصول کرتے وقت ان کی خوشی دیدنی تھی، کیونکہ طویل ریاضت کے باجود، اس نے دو دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے تک اس کو جیتنے کا انتظار کیا۔اس کردار کے لیے انجلینا جولی، نکول کڈمین سمیت کئی نامور اداکارائیں تیار تھیں، جبکہ کیٹ ونسلیٹ ہدایت کار کا پہلا انتخاب تھیںمگر ان کی مصروفیت فلم کی عکس بندی کے آڑے آرہی تھی، آخرکار کسی نہ کسی طرح یہ اس فلم کاحصہ بن ہی گئیں۔
ایسی کہانیاں جنگ کے ملبے میں سے ملنے والی وہ داستانیں ہیں، جنہوں نے ابتر حالات میں بھی انسانیت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور بطور انسان دنیا کو جنگ کی آگ سے بچانے کے لیے اپنے حصے کا مثبت کردار نبھایا، یہی اس کہانی کا طرہ امتیاز ہے۔