• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار آخرکاروزیراعظم عمران خان کابھی اعتمادکھوچکےہیں، لیکن اس اعلیٰ عہدے کیلئےاپنی پارٹی میں اندرونی لڑائی کے خطرے کےباعث وہ انھیں تبدیل کرنے کاجلد بازی میں فیصلہ نہیں کریں گے۔

لہذاجب وزیراعظم نے نیاچیف سیکریٹری لانے کا فیصلہ کیا تو انھوں نے ٹرانسفراورپوسٹنگ، ترقیاتی کام تیزکرنےاورمیڈیاامیج بہترکرنےکیلئےاس کی تشہیر کرنےکےحوالےسےانھیں کچھ فیصلے لینےکیلئےبااختیاربھی بنایا۔

اس کے علاوہ انھیں اسلام آبادسےمنظوری لیےبغیرکوئی بھی سمری وزیراعلیٰ کو براہِ راست نہ بھیجنےکی کچھ مخصوص ہدایات بھی دی گئیں۔

اگریہ رپورٹس درست ہیں کہ چیف سیکریٹری کوقابوکرنےکیلئےپی ٹی آئی کے20ایم پی ایزکےفارورڈبلاک کےپیچھےبزدارخودہیں تویہ ان کےحق میں نہیں ہو گااوروزیراعظم خودبھی اسےپسند نہیں کریں گے۔

ایک ماہ قبل ان کےلاہوردورےکےدوران وزیراعظم نےان کی تعریف کی تھی لیکن میڈیامیں ان کے خراب امیج پر تحفظات کااظہار کیاتھا۔

یہ بھی دیکھئے :پریشر گروپ معاملہ: حکومت کے ناراض اراکین سے رابطے


   پنجاب حکومت اور وزیراعلیٰ کے ترجمان تین بارتبدیل کرنے کے باوجودوزیراعظم کو مثبت نتائج نا مل سکے۔

بزدار کو سپورٹ کرنے کی خاطروزیراعظم ایک کےبعد ایک آئی جی پولیس لائے اور چیف سیکریٹریز کو بھی تبدیل کیا، بیوروکریسی میں بھی کئی بار تبدیلیاں کیں لیکن راجنپور کے شخص کیلئے ان کی سپورٹ بے کار ہی گئی۔

حتٰی کہ پی ٹی آئی کا مضبوط سوشل میڈیا گروپ بھی بزدار کو اٹھا نا سکا کیونکہ ان میں سے بہت سوں کا خیال تھا کہ مسئلہ خود وزیراعلیٰ کے ساتھ ہے۔ انھوں نے کود بھی اپنے ترجمان کو تین یاچار بار تبدیل کیا۔

موجودہ وزیرِ اطلاعات فیاض الحسن چوہان کو سمسان بخاری، میاں اسلم اور حتیٰ کہ شہباز گل کےبعددوسری بارلایاگیاہے۔

درحقیقت ان میں سے کوئی بھی ذمہ دار نہیں تھا کیونکہ انھیں ’جعلی امیج‘ اور ’جعلی کارکردگی‘ ظاہر کرنے میں مشکلات کاسامنا کرنا پڑا۔بزدار کومضبوط اپوزیشن یعنی پاکستان مسلم لیگ(ن) کی جانب سے اور نہ ہی کسی اہم اتحادی یعنی پاکستان مسلم لیگ(ق)کی طرف سےکسی بڑےچیلنچ کاسامنانہیں تھا سوائے اس کے کہ گجرات کے چوہدری کمزوروزیراعلیٰ سےزیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔

حقیقی چیلنج جس کا بزدار کو سامنا کرنا پرا اور اس کا مقابلہ نہ کرسکےیہ تھاکہ وہ 25جولائی 2018کے اتنخابات سے قبل پی ٹی آئی میں ایک اجنبی تھےاوراعلیٰ عہدے کیلئے دوڑ میں شامل نہیں تھے۔

وہ عمران خان کا پہلا انتخاب بھی نہیں تھے۔ عمران کو اس وقت پہلا دھچکہ لگا اور پنجاب کے سیاسی اور ترقیاتی منصوبے ختم ہوگئے جب سپریم کورٹ نے سابق وفاقی وزیر اور ان کی پارٹی کے سینئر نائب صدر جہانگیر ترین کو نااہل قراردیا۔

اگرچہ ان کےاور پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل شاہ محمود قریشی کے درمیان ہمیشہ ہی لڑائی رہی ہے لیکن پارٹی چیرمین نے ہمیشہ شاہ محمود کے مقابلے میں جہانگیرترین پر زیادہ اعتماد کیاہے۔

ان دونوں گروپوں میں لڑائی نے ایک نیا موڑ لیا جب شاہ محمود قریشی نےاعلیٰ عہدہ لینے کیلئے پنجاب میں اسمبلی کی سیٹ کیلئے بھی الیکشن لڑا لیکن وہ ہار گئے اور این اے کی سیٹ جیت گئے۔

اس سے شاہ محمود کے کیمپ میں کئی سوال اٹھے اور انھوں نے شکست کیلئے جہانگیر تیرین کو الزام دیا۔

اس دوڑ میں شامل دیگرلوگوں میں علیم خان بھی شامل تھے جو 2018 کے انتخابات تک لاہور سے مضبوط امیدوار تھے اور نیب انکوائری سے قبل ان کی گرفتاری کےبعد تک انھیں وزیراعظم کا اعتماد بھی حاصل تھا۔

تازہ ترین