• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری گاڑیوں کا قافلہ سیکورٹی حصار میں متحدہ علماء بورڈ حکومت ِ پنجاب کے دفتر اپر مال لاہور سے تقریباً 2گھنٹے میں میرے آبائی شہر نارووال پہنچتا ہے تو سفید سنگ مرمر سے بنے وسیع و عریض گوردوارہ کرتار پور میں ہمارا استقبال بریگیڈیئر (ر)عمران الطاف کرتے ہیں۔ بابا گرونانک کا سب سے پہلا تذکرہ میں نے گائوں میں بھینس، بکریاں چراتے ہوئے چوہدری بشیر کاہلوں سے سنا تھا، پھر گھر آ کر والدِ گرامی حکیم محمد امین سے اِس بابت دریافت کیا تو اُنہوں نے مجھے ایک کتاب تلاش کرنے کو کہاجس سے بابا گرونانک کی تفصیل پڑھنے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، مولانا طاہر اشرفی، مولانا سید ضیاء اللّٰہ بخاری اور مولانا سردار محمد خان لغاری کی موجودگی میں ہم نے اِس دورے کو ’’تحقیقاتی کمیشن‘‘ کا نام دیا تاکہ اس خیر سگالی اور عظیم الشان منصوبہ کی معلومات لی جائیں اور ’’لوگوں‘‘ کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات کی تصدیق یا پھر مضبوط بنیادوں پر تردید کی جائے۔ ہم اپنے قارئین کو اِس بات کی مکمل یقین دہانی کراتے ہیں جو ہمیں بریفنگ بریگیڈیئر (ر) عمران الطاف کی جانب سے دی گئی اس پر ہم نے سوالات کی بارش کر دی جس کا اُنہوں نے ہمیں تسلی بخش جواب دیا۔ منصوبے میں 19چیک پوسٹیں بنائی گئی ہیں، 350پنجاب پولیس کے جوان ڈیوٹی سرانجام دے ہیں رینجرز کے جوان اس کے علاوہ ہیں، ہفتہ کے چھ دن زائرین کی روزانہ تعداد سات آٹھ سو جبکہ اتوار کے دن پندرہ سو سے دو ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔ شدید سردی کے بعد یہ تعداد زیادہ ہو جائے گی، انڈین بارڈر کی جانب سے آنیوالے تمام خواتین، مرد اور بچے بیس ڈالر دے کر آتے ہیں۔ صبح تقریباً ساڑھے 9بجے لوگ آنا شروع ہوتے ہیں جن کی واپسی ساڑھے تین بجے شروع ہو جاتی ہے۔ زیرو لائن سے پاکستان داخلہ کے وقت ہاتھوں کی دس انگلیوں کو اسکین کیا جاتا ہے۔ کوئی دربار کے احاطہ سے باہر نکلنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ واپسی پر فنگر پرنٹس دوبارہ اسکین ہوں گے تو ہی دروازہ کھلے گا۔ 104ایکڑ رقبہ کا ایک ایک انچ جدید کیمروں سے محفوظ بنایا گیا ہے جو غیر ملکی پاکستان کی حدود کی جانب سے داخل ہوتے ہیں اُن کے پاسپورٹ لئے جاتے ہیں اور اُن کی کوئی فیس نہیں کیونکہ وہ پاکستان آنے سے پہلے ویزہ فیس ادا کر چکے ہوتے ہیں۔ زیرو لائن یعنی بارڈر کا گیٹ وقت پر کھلتا ہے اور وقت پر بند ہو جاتا ہے۔ باہر نکلنے کی کوئی صورت ہی نہیں بنتی۔

بابا گرونانک کی ریاضت، تعلیمات اور احترامِ انسانیت کے اصولوں نے اُنہیں ہندوؤں اور مسلمانوں میں یکساں مقبول بنایا حتیٰ کہ بابا گرونانک کی وفات کے بعد مسلمانوں اور سکھوں میں مسئلہ کھڑا ہو گیا کہ بابا گرو نانک کی آخری رسومات کس طرح ادا کی جائیں۔ بابا جی توحید کے قائل تھے اور اسی لئے ان کی شخصیت شرکیہ رسومات سے بیزار نظر آتی ہے۔

انڈیا سے آئے سکھ ہمیں ایسے احترام دے رہے تھے جیسے ہم نے اُن پر بہت بڑا احسان کر دیا ہے۔ ایک سکھ نے تو یہ بھی بتایا کہ سکھوں کی بہت بڑی تعداد بھارتی سرحد پر قائم درشن استھان سے دوربین کی مدد سے دربار دیکھتی ہے۔ بابا جی کے کنویں کے ساتھ ایک بم کا ٹکڑا شیشے میں رکھا ہوا ہے جس پر لکھا ہے کہ یہ گولہ انڈین ایئر فورس نے 1971کی جنگ میں بابا جی کے کنویں پر پھینکا تھا جس کو کنویں نے ’’اپنی گود‘‘ میں لے لیا اور دربار تباہ ہونے سے محفوظ رہا۔ صوفی کا فلسفہ جوڑنے کا ہے توڑنے کا نہیں، پنجاب کے صوفیوں، شاعروں، ادیبوں اور اہلِ دانش نے ہمیشہ جنگ کے شعلوں کو محبت کی ٹھنڈک سے سرد کیا ہے۔ جب پنجاب بیرونی حملہ آوروں کا میدانِ جنگ بنا تو عظیم شاعر وارث شاہ نے ہیر رانجھا کے عشق و محبت کی داستان لکھ کر پنجاب کو عزت دی۔ پھر 50سال رنجیت سنگھ کا دور رہا جس کے بعد پنجاب پر انگریزوں کا قبضہ رہا۔ 1947میں جب پنجابیوں نے پنجابیوں کا خون بہایا، ایسٹ پنجاب انڈیا کے پاس رہا اور ویسٹ پنجاب پاکستان کا حصہ بنا۔ پنجاب کا جغرافیہ تبدیل ہوا مگر ثقافت نہ بدلی۔ گوجرانوالہ میں 1919 میں پیدا ہونیوالی امرتا پریتم نے تقسیم ہند پر پنجاب میں ہونے والے قتل و غارت گری پر نظم لکھی تھی۔

اٹھ درد منداں دیا دردیا! اٹھ تک اپنا پنجاب

اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب

کسے نے پنجاں پانیاں وچ، دتی زہر رلا

تے انہاں پانیاں نے دھرت نوں دتا پانی لا

ایس زرخیز زمین تے لوں لوں پھٹیا زہر

گٹھ گٹھ چڑھیاں لالیاں پھٹ پھٹ چڑھیا قہر

جتھے وجدی سی پھوک پیار دی، اہ ونجھلی گئی گواچ

رانجھے دے سب ویر اج، بھل گئے اوھدی جاچ

دھرتی تے لہو وسیا قبراں پیاں چوون

پریت دیاں شاہ زادیاں اج وچ مزاراں روون

وے اج سبھے کیدو بن گئے حسن عشق دے چور

کتھوں لیائیے لبھ کے وارث شاہ اک ہور

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے انڈین کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو سے جو وعدہ کیا تھا اس کا پاکستان کو فائدہ ہوا ہے۔ پچھلے دنوں ہمیشہ کی طرح میرے مہربان دوست حاجی شاہد حمید قادری کے ہمراہ ہمارے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ دربار داتا صاحب حاضر ہوئے تو یہ منظر بڑا قابلِ دید تھا۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ اولیاء کرام کے مزارات بالخصوص داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کے مزارِ پُرانوار کے ساتھ اُن کا قلبی تعلق ہے اور اس تعلق کی مضبوطی کی بنیادی وجہ آرمی چیف کے والد گرامی ہیں جو عشق کی حد تک داتا علی ہجویریؒ کی کتاب کشف المحجوب سے پیار کرتے تھے۔

تازہ ترین