• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرکاری اور نجی بینک کی ملی بھگت ،1ارب روپے کے مالیاتی اسکینڈل کا انکشاف

 اسلام آباد(مہتاب حیدر) سرکاری اور نجی بینکوں کی ملی بھگت سے مبینہ طور پر ایک منظم مالیاتی اسکینڈل کا انکشاف ہوا ہے، جس میں دو جعلی کمپنیاں قائم کرکے جمع کرائی گئی ایک ارب روپے سے زائد کی رقم نکلوائی گئی ہے۔اس حوالے سے اومنی گروپ کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ہر چیز قانون کے مطابق ہوئی ہے ، سیاسی طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے ،سندھ بینک کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ تفتیش میں ساری بات واضح ہوجائے گی، حسین لوائی کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ معاملہ عدالت میں ہےاور وہیں اس کا فیصلہ ہوجائے گا۔ اومنی گروپ مبینہ طور پر اس میں ملوث ہے کیوں کہ اس کے ملازمین کی ماہانہ تنخواہ 20 ہزار روپے تھی جنہیں قرضے اور مارک اپ لینے کے لیے استعمال کیا گیا، جس کی مالیت ایک ارب روپے سے زائد بنتی ہے، جس کے بعد بینک قرضے ادا نہیں کیے گئے اور اب یہ ختم ہوگئے ہیں۔سرکاری دستاویزات کے ساتھ اسٹیٹ بینک اور نیب کے اعلیٰ حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انہیں مبینہ مالیاتی اسکینڈل سے متعلق تفصیلات موصول ہوئی ہیں، جس سے پورے ریگولیٹری نظام کی خامیاں سامنے آتی ہیں۔ ایف بی آر بے نامی زون۔3 کراچی کی جانب سے مبینہ کمپنی کے خلاف بےنامی ریفرنس دائر کیے جانے تک سب خاموش تھے۔ جب کہ حکام نے اب اسٹیٹ بینک اور نیب کے اعلیٰ حکام کو تفصیلات بھجوائی ہیں۔ پہلا قرضہ کیپٹل شرح قابلیت کی ضرورت پورا کرنے کے لیے سمٹ بینک کو فراہم کرنے کے دعویٰ کے ساتھ لیا گیا۔ جس کے بعد دوسرا قرضہ 81 کروڑ روپے کا حاصل کیا گیا جو کہ زمین اور اس کی قیمت کی صورت میں تھا، جس میں اس کی قیمت 1 اعشاریہ 4 ارب روپے ظاہر کی گئی حالاں کہ اس کی حقیقی قیمت اس سے بہت کم تھی۔ اسٹیٹ بینک اور نیب کو بھجوائے گئے دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ بینک کے 2016 کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق سمٹ بینک کو کیپٹل شرح قابلیت پوری کرنے کے لیے سرمایے کی سخت ضرورت تھی۔2 مئی، 2016 کو سندھ بینک اور سمٹ بینک کے اعلیٰ حکام کا اجلاس سندھ بینک ہیڈکوارٹرز میں ہوا۔ اسی اجلاس میں منظم بینک فراڈ کا فیصلہ کیا گیا۔ اس مبینہ منظم بینک فراڈ کا آغاز اس وقت ہوا جب ایم ایس پارک ویو اسٹاک اینڈ کیپٹل پرائیویٹ لمیٹڈ اور ایم ایس سیراکوم اسٹاک اینڈ کیپٹل پرائیویٹ لمیٹڈ دونوں جعلی کمپنیوں کو 4جولائی، 2016 کو ملایا گیا۔ کارروائی کے دوران تمام ڈائریکٹرز نے اقرار کیا کہ یونس قدوائی اور اسلم مسعود نے پارک ویو اسٹاک اینڈ کیپٹل پرائیویٹ لمیٹڈ میں انہیں ڈائریکٹرز بنایا تھا۔تحقیقات کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک ڈائریکٹر محمد اشتیاق ایم ایس روبیکون بلڈرز پرائیویٹ لمیٹڈ کا کم تنخواہ ملازم ہے اور اس کی تنخواہ 20 ہزار روپے ماہانہ ہے۔ اسی طرح ایک اور ڈائریکٹر محمد عارف بھی اسی کمپنی کا ملازم ہے۔ طارق پرویز رضی جسے ڈائریکٹر بنایا گیا۔ اس نے بھی تصدیق کی ہے کہ وہ تعمیر مشرق پرائیویٹ لمیٹڈ میں ریسیپشنسٹ تھا۔ اسی طرح محمد حنیف نامی شخص ایم ایس پارتھینن پرائیویٹ لمیٹڈ کا ملازم تھا جو صرف تنخواہ پر گزارہ کررہا تھا۔ معاہدے کے تحت پارک ویو نامی ایک کمپنی نے 14کروڑ روپے سندھ بینک سے سمٹ بینک کے شیئرز کے ذریعے حاصل کئے ۔ اس کیلئے جام چاکرو، ٹاپو منگھو پیر، گڈاپ ٹاون کراچی میں 4ایکڑز زمین کو رہن کے طور پر رکھوایا گیا ۔ ریکارڈ میں اس زمین کا مالک ذوالفقار علی نامی شخص کو ظاہر کیا گیا جبکہ سیراکوم نے بھی یہی زمین رہن کے طور پر رکھوائی اور اس کا مالک ارشد اقبال نامی شخص کو ظاہر کیا گیا ۔ پرل سیکورٹیز کی چیف ایگزیکٹیو آفیسر (سی ای او) فرح زبیر نے جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کو دیے گئے اپنے بیان میں تصدیق کی کہ ابتدائی طور پر حسین لوائی جو کہ اس وقت سمٹ بینک کے سی ای او تھے نے سمٹ بینک کے 3 کروڑ کے پریفرینس شیئرز خریدے تھے جس کی ادائیگی اقبال میٹل کے عنوان کے ایک اکاوئنٹ سے کی گئی تھی (جو کہ ایک اور مشتبہ کاروباری لین دین ہے) اور اس کے بعد ان ہی کی ہدایت پر یہ شیئرز سیراکام اسٹاک اینڈ کیپٹل پرائیوٹ لمیٹیڈ میں منتقل کردیے گئے۔ اسی طرح 2 کروڑ کے شیئرز پارک ویو اسٹاک اینڈ کیپٹل پرائیوٹ لمیٹیڈ کو منتقل کئے گئے۔ سندھ بینک کے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جیسا کہ بقایہ رقم 140 روپے تھی اسی لئے سود کی ادائیگی فروری 2018ء سے روک دی گئی تھی۔ اینٹی بینامی ریجیم کے قابل عمل ہونے کے بعد پیسے کی واپسی کیلئے 25 جولائی 2019ء کو رقم کی واپسی کیلئے کیس دائر کیا گیا۔ دوسرے کیس میں جہاں بقایہ رقم 700 روپے تھی سود کی ادائیگی ستمبر 2017ء سے روک دی گئی تھی۔ سندھ بینک کے کریڈٹ کمیٹی کی منظوری دینے والے میمورنڈم کے مطابق یہ سارا عمل سمٹ بینک کی اس وقت کی منیجمنٹ (حسین لوائی) کی ہدایت پر کیا گیا اور مبینہ طور پر اس کے پیچھے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ہدایات کارفرما تھیں۔ یہ سارا منصوبہ دو مئی 2016ء کو کی گئی ایک میٹنگ میں بنایا گیا حالاں کہ اس وقت تک مذکورہ ڈمی کمپنی کا قیام بھی عمل میں نہیں لایا گیا تھا جو کہ جولائی 2016ء میں قائم کی گئی۔ اس میٹنگ میں حسین لوائی جو کہ اس وقت بینک کے صدر اور کریڈٹ ہیڈ تھے بھی شریک تھے۔ اسٹیٹ بینک کی ہدایات کی آڑ میں طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت بے نامی ڈائریکٹرز کیساتھ ڈمی کمپنیاں بنائی گئیں، ان کی جعلی فنانشل پراجیکشنز کو قبول کیا گیا، اثاثوں کو حقیقی مالیت سے زیادہ دکھا کر رہن کے طور پر رکھا گیا اور اس کے عوض سندھ بینک سے بھاری بھرکم قرضے حاصل کئے گئے۔ مختصر یہ کہ یہ ایک طے منظم بینک ڈکیتی اور دھوکہ دہی تھی۔ ڈائریکٹرز کی جانب سے مالیت کے اندازوں کے حوالے سے بینک کا ریکارڈ مکمل طور پر خاموش ہے۔ فقط ذاتی شناخت بذریعہ شناختی کارڈز اور رہائشی پتہ حاصل کرکے اسے ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا ہے۔ کریڈٹ کمیٹی کی جانب سے ڈائریکٹرز کی بزنس پروفائل بڑی حد تک ان کے غیر پیشہ وارانہ رویے کو ظاہر کرتا ہے۔ ان میں سے کسی کا بھی ماضی میں اسٹاک مارکیٹ کا کوئی تجربہ نہیں رہا۔ مزید یہ کہ مذکورہ پروفائل ان کے سب سے اہم پہلو ان کے قابل بھروسہ ہونے کے معاملے پر بھی مکمل طور پر خاموش ہے۔ اسی طرح رہن کے طور پر رکھے جانے والے اثاثوں کو قبول کرتے وقت بھی سندھ بینک نے ان کا کوئی جائزہ نہیں لیا کیوں کہ بینک کے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بینک نے ایک تیسرے فریق کی پراپرٹی کو بطور رہن تسلیم کیا حالاں کہ یہ وہی پراپرٹی تھی جو پہلے سے ہی سندھ بینک میں رہن کے طور پر ایک اور ڈمی کمپنی ’’سیرا کوم اسٹاک اینڈ کیپٹل پرائیوٹ لمیٹیڈ‘‘ کی جانب سے رکھوائی جاچکی تھی۔ مذکورہ تیسرے فریق کی جانب سے رہن کے طور پر رکھوائی جانے والی زمین کو کمرشل زمین دکھایا گیا اور 2016ء میں اس کی مالیت 1.4 ارب روپے دکھائی گئی ہے جو جام چاکرو میں واقع ہے جہاں کچرا ڈمپ کیا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ پر سرفنگ سے اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ جام چاکرو میں ایک ایکڑ زمین کی مالیت 2018ء میں 55 لاکھ تھی جبکہ 2016ء میں اس وقت اس کی 4 ایکڑ زمین کی مالیت 1.4 ارب روپے ظاہر کی گئی تھی۔ مذکورہ چار ایکڑ زمین 25 جون 2016ء کو ارشد اقبال نامی شخص نے مریم، سوہیلہ اور کلثوم نامی خواتین سے ایک کروڑ 35 لاکھ 52 ہزار روپے میں خریدی تھی اور اسی زمین کو اگست 2016ء میں سیراکوم نے 70 کروڑ کا قرض حاصل کرنے کیلئے رہن کے طور پر رکھوایا جبکہ یہی زمین پارک ویو کیس میں بھی رہن کے طور پر استعمال میں لائی گئی۔ بینک کے ریکارڈ کے مطابق جب بینک نے کمپنی کے ڈائریکٹرز اور مذکورہ زمین کے مالک ارشد اقبال کے درمیان رشتے کے حوالے سے سوال اٹھایا تو اس کے جواب میں دونوں کے درمیان 30 سال پر مبنی فیملی تعلق کا بتایا گیا اور اسے تسلیم بھی کرلیا گیا۔
تازہ ترین