• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’آواز‘ یومِ یک جہتی کشمیر کی مناسبت سے لکھا گیا خصوصی افسانہ

’’شایدکوئی ہے…؟؟‘‘،وہ بڑبڑایا۔ اُسے لگا اس کے پیچھے ضرورکوئی ہے، مڑ کر دیکھا، تودُور تک گلی خالی تھی۔ ہاں اگر کچھ تھا، توتاریکی اور لالہ جی کے مکان کے چھجّےپرٹمٹماتا بلب ، جواس تاریکی سے لڑنے کی ناکام جدّوجہد میں مصروف تھا۔ آنکھیں جھوٹ بول سکتی ہیں ،مگر کان جھوٹ کیوں بولیں گے۔ اُسے اپنے پیچھے گلی میں اپنے قدموں کی چاپ کے علاوہ دو اور آدمیوں کے قدموں کی آواز واضح سنائی دی تھی۔ لیکن وہ جب بھی مُڑ کر دیکھتا، گلی خالی ہی نظر آتی۔ 

اس نے اپنی رفتار تیز کردی ۔گلی کے نکّڑ پہ قسائیوں کا کُتّا، جو تھوڑی دیر پہلے ہی چھیچھڑوں کی دعوت ِ شیراز اڑا کر آیا تھا۔ اگلی ٹانگوں پہ تھوتھنی جمائے نیم غنودگی کی کیفیت میں لیٹا تھا۔ تیز ی سے چلتے ہوئے اس کا پائوں کتے کو لگ گیا، جس سے اس نے شور مچادیا۔وہ تھوڑی دیر کے لیے ٹھٹکا ،رُکا ،پھر آگے بڑھ گیا، جب کہ کتا پیچھے کی طرف بھاگ نکلااور وہ نکّڑ سے داہنی طرف مڑ گیا۔ 

اسی اثنا لالہ جی کے مکان کی بغلی گلی سے دو سائے نکلے اور گلی کی نکڑ کی طرف دوڑ ے۔ اُس کے پیچھے وہ دونوں سائے بھی تھوڑی دیر بعد دائیں طرف مڑ گئے۔ داہنی طرف مُڑے تووہ شخص گلی میں دیوار سے چپکا کھڑا تھا ۔ آمنا سامنا ہوتے ہی اُس اکیلے شخص نے دوڑ لگا دی ۔وہ دونوں بھی اس کے پیچھے دوڑنے لگے۔

تھوڑی دور جا کر ایک مسجد کے سامنے کیلے کا ایک چھلکا پڑا تھا،تاریکی میں وہ کیلے کا چھلکا اُسے نظر نہیں آیا۔ اس کا پائوں چھلکے پر پڑااور وہ پھسل کرچاروں شانے چت زمین پر آرہا۔ اس سے پہلے کہ وہ اُٹھتا اور پھر سے بھاگنے کی کوشش کرتا ،وہ دونوں اس کے سر پر پہنچ گئے۔ انہوں نے اس کے بازو ،اس کی کمر پرکس کے باندھ دیئے۔ اُن میں سے ایک نے جیب میں سے نقاب نکالا اور اس کے منہ پرلگا دیا۔ گلی کی نیم سیاہی چہرے پہ نقاب چڑھتے ہی مکمل تاریکی میں بدل گئی۔ اس کے ارد گرد کی دنیا، جو پہلے ہی تاریکی میں ڈوبی تھی ، تاریک تر ہو گئی۔

ہوش آیا، توخود کو کرسی پر بیٹھا پایا۔ اُس کے بازو کرسی کی پشت سے بندھے تھے۔ آنکھیں لال انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔ چار دنوں سے وہ مسلسل جاگ رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے لیےجیسے ہی اس کا سر سینے پر جھکا ،آنکھوں کے پپوٹے نیند کی بھاری سِل کے بوجھ تلے دب کر بند ہوگئے۔ اچانک دو سو واٹ کابلب اس کے سر پر روشن ہو گیا ۔ تالا کھلنے کی آواز آئی۔ بھاری بوٹ کا جھٹکا جیسے ہی آہنی سلاخوں سے دروازے کو لگا۔ دروازہ کنکریٹ کی دیوار سے جا ٹکرایا ۔’’دھڑام… ‘‘ایک آواز آئی۔یہ بےہنگم آواز یں سنتے ہی اس کانیند سے جھکا سر تیزی سے اوپر اٹھا، جیسے کسا ہواا سپرنگ چھوڑنے پر اوپر اچھلتا ہے۔ 

آنکھوں کے انگارے پھر سے روشن ہوئے ہی تھے کہ اُس پردھڑا دھڑ ڈنڈوں اور چابک کی برسات ہوگئی ،اس کا جسم لہو لہان ہو رہا تھا۔’’رحم، رحم… تھوڑا ، تو رحم کرو ۔‘‘ لفظ اس کے منہ سے ٹوٹ ٹوٹ کر ایسے گر رہے تھے،جیسے خزاں میں سوکھے پتّے ، درختوں سے زمین پر گِرتے ہیں۔’’رحم …؟؟وہ کیا ہوتا ہے؟اس نام کا کوئی لفظ میں نے کبھی زندگی میں نہیں سنا، مجھے نہیں پتا یہ رحم کیا چیز ہوتی ہے…؟‘‘’’تمہیں تمہارے ماں ،باپ کا واسطہ مجھے بس پانچ منٹ کے لیےسو نے دو۔ پھر چا ہے جتنا مرضی تشدّد کر لینا۔ ‘‘حفظ اللہ نے سر اُٹھا کرالتجائیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا، آنکھوں کے انگاروں پہ پلکوں کی چادر دو تین بار گِری اور اٹھی۔

حفظ اللہ شاعر تھا۔ لفظوں سےخواب بُنتا اور ان خوابوں کو لوگوں کی آنکھوں میں سجا دیتا۔ جب وہ وادی کے گلی، کُوچوں میں پِھرتے جبر کے عفریت کو دیکھتا ،تو اس کے دل میں ایک آگ سی بھڑک اُٹھتی۔ ایک الائو تھا، جو ہر دَم اُس کے سینے میں جلتا رہتا ۔ وہ جب معصوم جانوں پر ظلم و ستم ہوتے دیکھتا ،تو اس کے خلاف آوازکے لیے اپنے قلم کو تلوار کی طرح استعمال کرتا ۔ نظمیں لکھتا، شعر کہتا۔ اُس کے لفظوں میں اتنی طاقت تھی کہ کسی جلسے میں جب وہ ترنّم کے ساتھ پڑھتا، تو ہر نفس کا جذبۂ آزادی تازہ ہوجاتا۔ 

وہ آزادی کے خواب دیکھتا اور دکھاتا تھا۔ ’’رحم صرف ایک صُورت میں ممکن ہے کہ تم خاموش ہو جائو۔ چُپ چاپ گھر بیٹھ جائو، آیندہ کسی جلسے، جلوس میں نظر مت آنا …‘‘جلّاد نے اسے گھورتے ہوئے فرمان جاری کیا۔’’نہیں، ایسا ہر گزنہیں ہو سکتا، یہ آنکھیں اگر ظلم دیکھیں گی، توزبان اس کے خلاف احتجاج ضرور کرے گی…مَیں مر توسکتا ہوں ،خاموش نہیں ہو سکتا ۔ 

تمہیں تمہارے بچّوں کا واسطہ، ایک گولی میرے سینے میں اتار دو تاکہ میں ابدی نیند سو جائوں اور میری زبان بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیےخاموش ہو جائے …‘‘حفظ اللہ نے گِڑگِڑاتے ہوئے کہا۔’’اتنی آسانی سے نہیں مرنے دوں گا …‘‘ ظالم فوجی نے یہ کہہ کر دوبارہ تشدّد شروع کر دیا، کوڑے، ڈنڈے کیا کچھ تھا، جو اس کے جسم پر نہیں برسایا۔ حفظ اللہ کی آنکھیں بجھتی گئیں، جیسے تیز ہوا میں چراغ گُل ہوتے ہیں۔ کوئی ٹھنڈی چیز ، اس کی پشت کی کھال جلا رہی تھی۔ اُسے لگا، جیسے وہ ایک سرد آگ پر لیٹا ہے۔ ٹھنڈک سے اس کا بدن جل رہا تھا۔ 

ہڈّیوں تک میں اترتی ٹھنڈ سے اس کی آنکھ کُھل گئیں ۔ اس نے کئی بار اٹھنے کی کوشش کی ، مگر ٹانگیں اور بازو مضبوطی سے بندھے تھے۔ اس نے گردن گھما کے اِدھر اُدھر دیکھا، تو وہ برف کی ایک سِل پر لیٹا تھا۔ اس کے زخموں سے رِستا لہو برف کی اس سفید سِل کو سُرخ کر رہا تھا۔جسم کی حرارت سے برف کا پگھلنے والا پانی، خون کی سرخی کےساتھ کمرے کے فرش کو رنگین کر رہا تھا۔ ’’دیکھو،تمہارے پاس آخری موقع ہے۔میری بات مان لو ‘‘ سر کی طرف کھڑے جلاّد کی آواز حفظ اللہ کے کانوں سے ٹکرائی۔ ’’کیا بات مان لوں …؟‘‘ اس نے مہین آواز میں پوچھا۔’’بولنا بند کردو۔ کشمیر کی آزادی کے حق میں اور بھارت کے خلاف آواز اٹھانا بند کردو…‘‘ ’’کیسے آواز اٹھانا بند کر دوں، جب میں اپنے ارد گرد ظلم و ستم کی آگ میں جلتے لوگوں کو دیکھتا ہوں، تو میں چُپ نہیں رہ سکتا۔ 

کشمیر کا ہر بچّہ، میرا بچّہ اور جوان میرا بھائی ہے۔میری بہنوں کی طرف اُٹھنے والی ہر گندی نگاہ میرا دل چیرتی ہے۔ تم لوگ انسان نہیں، انسان کے رُوپ میں بھیڑیے ہو۔ کیا تمہاری مائیں، بہنیں نہیں؟؟کیا تمہارے گھروں میں بزرگ، بچّے نہیں ہوتے…؟؟ میرے الفاظ میرے جذبات ہیں، جو خود بخود زبان پر آ جاتے ہیں …‘‘ ’’ٹھیک ہے، آج کے بعد تمہیں وادی میں ہوتا ظلم کبھی نظر نہیں آئے گا اور نہ ہی تمہاری زبان بھارتی حکومت کے خلاف آواز اُٹھائے گی۔ ‘‘ یہ کہہ کر جلّاد نے ساتھی فوجیوں کو اشارہ کیا۔

انہوں نے حفظ اللہ کے بازو اور ٹانگیں پکڑیں اوراُس جلّاد نما آفیسر نے سُرخ دہکتی انگارہ سلاخ اس کی دونوں آنکھوں میں ڈال دی۔حفظ اللہ کی فلک شگاف چیخیں صعوبت خانے کے در و دیوار سے ٹکرارہی تھیں، باہر درختوں پہ بیٹھے پرندے تک پھڑپھڑا کر اُڑ گئے۔ایک فوجی نے اُس کے کُھلے منہ میں ہاتھ ڈال کر زبان باہر کھینچی اور تیز دھار چُھرے سے کاٹ کر فرش پر پھینک دی۔دیکھتے ہی دیکھتے اس کا پورامنہ لہو سےبھر گیا، جس کا ذائقہ محسوس کرنے والی زبان اب منہ میں نہ تھی۔ آنکھوں کی تاریکی اس کے دماغ تک پھیلتی چلی گئی۔ وہ دھڑام سے فرش پر جاگرا ،جیسے زلزلے میں کوئی کچا گھروندہ گِرتا ہے۔

اس واقعے کو اب کئی سال گزر چکے ہیں ۔حفظ اللہ کورات کی تاریکی میں جس جگہ سے اٹھایا گیا تھا، وہیں پھینک دیا گیا۔ وہ تقریباً ایک مہینہ اسپتال رہا۔ اس کی جان تو بچ گئی، مگر کشمیریوں پر ظلم و ستم دیکھنے والی آنکھیں رہیں،نہ سفّاکیت کے خلاف آواز اُٹھانےوالی زبان۔مگر بھارتی یہ نہیں ،سمجھ سکے کہ زبان کاٹنے سے آواز نہیں دبائی جا سکتی، حق کی آواز اپنا راستہ خود بنالیتی ہے۔ 

حفظ اللہ کہہ کر نہیں، لکھ کر اپنے جذبات لوگوں تک پہنچا دیتا ہے۔ معصوم کشمیری کرفیو، ظلم و ستم ، پابندیوں میں جکڑتے ہی چلے جارہے ہیں، مگر ان کے حوصلے پہلے سے زیادہ مضبوط، مستحکم اور بلند ہیں۔ یہ دَور تو ویسے بھی سوشل میڈیا کا ہے۔حفظ اللہ کا کا بھانجا ، اس کی نظمیں سوشل میڈیا پر پھیلا کر ماموں کی آواز دنیا کے کونے کونے میں پہنچا رہا ہے۔ اس کے الفاظ اب بھی لہو گرما دیتے ہیں۔اسکولز میں ننّھے کشمیری اس کی نظمیں گنگناتے نظر آتے ہیں۔ان سب کے دل جذبۂ آزادی سے بھرپور ہیں۔

سردیوں کی ایک شام، حفظ اللہ کھڑکی میں کھڑا تھا۔ ٹھنڈی ہوا اندر آرہی تھی ۔ہوا میں بارود کی بُو، آنسو گیس کے بخارات تھے،جو اس کی ناک سے ٹکرا رہے تھے۔ باہر فوجی ٹرکوں کے انجن کا شور تھا، جو کبھی کبھار سنائی دے جاتا۔ کبھی کبھی دوڑتے ہوئے فوجی بُوٹوں کی آواز سنائی دیتی۔ ’’آصف یہ کیسا شور ہے…؟؟ ‘‘اس نے دروازے کھلنے اور بند ہونے کی آواز سُنی، تو اپنے بھانجےسےپوچھا۔ اس گھر میں وہ اور اس کا بھانجا دو فرد ہی رہتے تھے۔’’ماموں جان افواہیں ہیں کہ بھارتی حکومت کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے جا رہی ہے۔اس لیے کرفیو لگ گیا ہے۔مودی نے مقبوضہ وادی میں فوجوں کی تعداد بڑھادی ہے۔

ابھی سے ہر طرف خوف وہراس ہے۔‘‘بھانجے کی بات سُن کر حفظ اللہ اپنے اسٹڈی ٹیبل پربیٹھ گیا۔پھر رات گئے تک لکھتا رہا۔ جب وہ لکھتے لکھتے تھک گیا، تو پلندا آصف کو پکڑا دیا۔ آصف کو پتا تھا کہ اب اس نے یہ سب نظمیں ٹائپ کر کے سوشل میڈیا پہ شیئر کرنی ہیں۔اس نے کمپیوٹر آن کر کے انٹرنیٹ چلانے کی کوشش کی ،مگر افسوس کہ انٹرنیٹ بھی بند کر دیا گیاتھا۔ اس نے موبائل کی اسکرین دیکھی ،تونیٹ ورکنگ نہیں تھی۔وہ سمجھ گیا کہ پوری وادی کی آواز بند کر دی گئی ہے۔ ایک پوری ریاست کو گونگا کر دیا گیا ہے۔

لیکن…اس ’’یومِ یک جہتیٔ کشمیر ‘‘ہم سب کواس طرح معصوم، مظلوم اور دلیر کشمیریوں کی آواز بننا چاہیے کہ اس آواز سےنئی دہلی میں بیٹھے جلاّد، مودی کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں۔

تازہ ترین