• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومتی پارٹی میں ڈسپلن قائم رکھنے کیلئے اتوار کو وزیراعظم عمران خان نے پہلا فیصلہ کن قدم اٹھایا جب خیبر پختونخوا کے تین وزرا کو وزیراعلیٰ کے خلاف سازش کرنے کے الزام میں صوبائی کابینہ سے برطرف کر دیا۔ برطرف وزرا میں وزارتِ اعلیٰ کے ممکنہ امیدوار عاطف خان کے علاوہ شہرام ترکئی اور شکیل احمد شامل ہیں۔ وزیراعظم کی ہدایت اور وزیراعلیٰ محمود خان کی سفارش پر صوبائی گورنر نے ان کی برطرفی کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر یہ کارروائی نہ کی جاتی تو خدشہ تھا بغاوت مزید پھیل جاتی اور پارٹی تقسیم کا شکار ہو جاتی۔ کہا جاتا ہےکہ عاطف خان طاقتور حلقوں سے قریبی تعلق رکھنے والی ایک ریٹائرڈ شخصیت سے بھی ملے تھے تاکہ ان کی مدد سے وزیراعلیٰ بن سکیں۔ یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ انہیں اس معاملے میں 5دیگر وزرا اور 20ارکانِ اسمبلی کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اگرچہ مبصرین کا خیال ہے کہ باغی برطرف وزرا کا پریشر گروپ پیچھے نہیں ہٹے گا اور حکومتی پارٹی میں پڑنے والی دراڑیں بند نہیں ہوں گی لیکن وزیراعظم کے اقدام سے نہ صرف صوبائی حکومت مستحکم ہو گئی ہے بلکہ پنجاب میں بھی سیاسی تبدیلی کا، جس کی خواہش بعض وفاقی اور صوبائی وزرا کے دلوں میں پرورش پا رہی تھی، امکان ختم ہو گیا ہے۔ وزیراعظم نے لاہور میں ملاقات کرنے والے ارکانِ صوبائی اسمبلی کو دو ٹوک الفاظ میں بتا دیا ہے کہ ’’میں پنجاب میں عثمان بزدار کو نہیں ہٹائوں گا۔ انہیں ہٹایا تو اگلا وزیراعلیٰ 20دن بھی نہیں چل پائے گا۔ اسے بھی اسی طرح ہٹا دیا جائے گا‘‘۔ وزیراعظم کے اس بیانیے کو 1950ء کی دہائی کے تناظر میں دیکھا جائے جب ملک میں اقتدار کیلئے میوزیکل چیئرز کا کھیل عروج پر تھا اور آئے روز حکومتیں تبدیل ہوا کرتی تھیں جس کے نتیجے میں بالآخر جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ دی گئی اور پاکستان میں پہلا مارشل لا تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ نافذ کر دیا گیا تو ان کے بر وقت فیصلے کی اصابت واضح ہو جاتی ہے۔ موجودہ حکومت کو برسر اقتدار آئے بمشکل ڈیڑھ سال گزرا ہے۔ پریشر گروپوں کے دبائو پر وزرائے اعلیٰ تبدیل ہونے لگیں تو ایک طرف اس کی کارکردگی متاثر ہوگی اور دوسری طرف سیاسی افراتفری اور انارکی کا ماحول پیدا ہو جائے گا جو ملک کو سیاسی استحکام سے دور لے جائے گا اور معاشی استحکام بھی خواب بن کر رہ جائے گا۔ اس وقت نہ صرف خیبر پختونخوا اور پنجاب بلکہ بلوچستان میں بھی وزیراعلیٰ کو ہٹانے کی باتیں ہو رہی تھیں جن کا موجودہ اندرونی اور بیرونی صورتحال کے پیش نظر پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا۔ وزیراعظم نے اپنی حکمتِ عملی سے اوّل الذکر دونوں صوبوں میں کسی تبدیلی کا امکان روک دیا ہے جبکہ بلوچستان میں وزیراعلیٰ جام کمال اور اسپیکر قدوس بزنجو کے درمیان معاملات طے کرا دیے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ عثمان بزدار، محمود خان اور جام کمال اپنی جگہوں پر قائم رہیں گے جو سیاسی استحکام کی جانب خوش آئند پیش رفت ہے۔ تاہم سیاست امکانات کا کھیل ہے اور اپوزیشن پارٹیوں کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے ارکان کے ساتھ ان کے رابطے موجود ہیں اور یہ کہ وفاق اور پنجاب میں تبدیلی ان کا ٹارگٹ ہے۔ ایسی صورت حال میں حکومت کیلئے ’’سب اچھا‘‘ کی خوش فہمی مناسب نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ حکومتی قائدین ملک میں سیاسی استحکام اور معاشی بحالی کیلئے اپوزیشن کے ساتھ مل بیٹھیں اور صلح صفائی کا ماحول پیدا کرکے باہمی افہام و تفہیم سے بڑے پیمانے پر مشترکہ ایجنڈا طے کریں۔ اس حوالے سے حکومت کو اپنی کوتاہیوں پر توجہ دینی چاہئے اور گورننس بہتر بنانی چاہئے۔ اپوزیشن کو بھی چاہئے کہ مخالفت برائے مخالفت کے بجائے جمہوری اصولوں کی متابعت میں ملکی مفاد کی خاطر حکومت کے ساتھ مل جل کر آگے بڑھے۔

تازہ ترین