• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس وقت رونگٹے کھڑے کردینے والا واقعہ میرے ساتھ پیش آیا، اس وقت میں دیوار پر آویزاں یعنی لگے ہوئے دو ٹیلی وژن سیٹس پر چلنے والے اپنی پسند کے دو پروگرام دیکھ رہا تھا۔ آپ میرے پاگل پن پرحیران ہو رہے ہونگے۔ آپ سوچ رہے ہوںگے کہ یہ امر امکان سے باہر ہے کہ ایک شخص ایک وقت پر دو پروگرام دیکھ سکتا ہے۔ ہمارے پچاسیوں ٹیلیوژن مالکان نے یہ کام ممکن کر دکھایا ہے۔ آپ ایک ہی وقت میں اس قدر مختلف چیزیں دیکھنے کے عادی ہو گئے ہیں کہ آپ بھی میری طرح اس مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ ہمیں پتا نہیں چلتا کہ ہم ایک وقت میں اتنی چیزیں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ آج کل ٹیلیوژن اسکرین پرانے دور کی ٹیلیوژن اسکرین سے قطعی مختلف ہے۔ پچھلے دور میں ایک نیوز ریڈر خبریں پڑھ کر ہمیں سناتا تھا۔ تب ہم خبریں سنتے تھے۔ اب ہم خبریں دیکھتے ہیں۔ دودو نیوز ریڈر، ایک خاتون دوسرا مرد نہایت ڈرامائی انداز میں ہمیں خبریں سناتے ہیں۔ خبریں پڑھ کر سناتے ہوئے اداکاری کے جوہر دکھاتے ہیں۔ اس لیے آپ خبریں سنتے نہیں۔ آپ خبریں دیکھتے ہیں۔ آپ صرف خبریں نہیں دیکھتے ۔ آپ تین چار حصوں میں بٹے ہوئے اسکرین پرطرح طرح کے مناظر دیکھتے ہیں۔ غیر ضروری وڈیو دیکھتے ہیں۔ اسکرین کے ٹاپ اور باٹم یعنی اوپر اور نیچے دھواں دار اور توڑ پھوڑ Breakingخبروں کی پٹیاں Loopمیں چلتی رہتی ہیں اور وقفہ وقفہ سے کالوں کو گورا اور گوروں کو کالا کرنیوالی کریموں کے اشتہارات کی بھرمار ہوتی رہتی ہے۔ یہ سب کچھ آپ کو ایک وقت میں، ایک ساتھ دیکھنا اور دیکھنے کے بعد سمجھنا پڑتا ہے۔ ٹیلی وژن چینلز کے مالکان نے پاکستانی قوم کو تیز طرار اور ذہین بنادیا ہے۔ میں بھی آپ کی طرح پاکستانی قوم کا ایک فرد ہوں۔ حالانکہ پیدائشی طور پر میں کالا انگریز یعنی British indianہوں۔ چونکنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ چودہ اگست انیس سوسینتالیس سے پہلے پیدا ہونیوالے ہم سب برطانوی ہندوستانی تھے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے۔ کسی نئے ملک کے بننے یا وجود میں آنے سے پہلے جنم لینے والے پیدائشی طور پر اس ملک کے شہری نہیں ہو سکتے۔ اس نوعیت کی الجھی ہوئی باتیں پہلے میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔ خدا بھلا کرے پچاسیوں ٹیلی وژن کے مالکان کا جنہوں نے پاکستانی قوم کو ذہین کردیا ہے۔ ایک ذہین آدمی دو ٹیلی وژن سیٹس تو کیا، دس ٹیلی وژن سیٹوں پر چلنے والے دس مختلف پروگرام دیکھ سکتا ہے اور بحث مباحثوں میں حصہ لے سکتا ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ اگلے پانچ برسوں کیلئے حکومت کی باگ ڈور ٹیلی وژن چینلز کے مالکان اور ان کے اینکر پرسنز کو دے دیں۔ وہ آپ کو دکھائیں گے کہ ملک کیسے چلایا جاتا ہے اور ملک پر حکومت کیسے کی جاتی ہے۔ طرح طرح کے لوگوں نے اس ملک پر حکومت کی ہے۔ اب کے ملک اینکرز کو چلانے دیجئے۔ انکے بحث مباحثے سنتے سنتے میں بھی کچھ کچھ سیانا ہوگیا ہوں۔ میں دوٹیلی وژن سیٹوں پر دومختلف چلنے والے پروگرام ایک ساتھ دیکھ سکتا ہوں۔

میں دوٹیلی وژن سیٹس پر چلنے والے اپنی پسند کے دومختلف نوعیت کے پروگرام ایک ساتھ دیکھ رہا تھا ۔ ایک پروگرام ریسلنگ کا تھا۔ دوتین پہلوان ایک دوسرے کی خوب دھنائی کررہے تھے۔ دوسرے پروگرام میں دو تین اینکر ملکر بڑی بیدردی سے سیاستدانوں کی بیخ کنی کررہے تھے۔ سیاستدانوں کی ایسی بیخ کنی جسٹس ریٹائرڈ ثاقب نثار نے بھی نہیں کی تھی۔ وہ گڑے مردوں کو اس طرح اکھاڑتے تھے کہ مردے آج تک کراچی کےفٹ پاتھوں اور ایمپریس مارکیٹ کے آس پاس پڑے ہوئے ہیں۔ ڈیم بنے، نہ بنے، ہم ڈیم فول بن گئے تھے۔ رات کے پہروں کا مجھے پتا نہیں چلتا۔ نہ جانے کونسا پہرتھا۔ میں انہماک سے دوٹیلی وژن سیٹس دیکھ رہا تھا ۔ دروازے پر کسی نے دستک دی۔ میں نے دروازہ نہیں کھولا۔ میں پروگرام دیکھتا رہا۔ دوسری مرتبہ، تیسری اور چوتھی مرتبہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ میں نے دروازہ نہیں کھولا۔تب میں نے کسی کی کرخت اور گرجدار آواز سنی۔ ’’دروازہ کھولتے ہو، یا دروازہ توڑ کرہم اندر آجائیں‘‘۔

میں نے چیخ کر کہا ’’دروازہ مت توڑنا۔ میرے پاس کواڑ بنوانے کے پیسے نہیں ہیں۔ میں دروازہ کھولتا ہوں‘‘۔میں نے جیسے ہی دروازہ کھولا، کسی لحیم شحیم شخص نے مجھے کالا ٹوپ پہنا دیا۔ دوسرے نے کس کر میرے ہاتھ باندھ دیے۔ مجھے دومشٹنڈوں نے بازوئوں سے پکڑ لیا اور دھکے دیتے ہوئے مجھے سڑک پر لے آئے۔ مجھے دھکیل کر گاڑی میں بٹھایا۔ گاڑی تیزی سے روانہ ہوئی۔ کراچی کا شہر میری رگ رگ میں بسا ہوا ہے۔ گوکہ اغوا کرنے والوں نے مجھے کالا ٹوپ پہنا دیا تھا، میں کچھ دیکھ نہیں سکتا تھا مگر میں محسوس کر سکتا تھا کہ وہ مجھے کراچی کے روڈ راستوں اور تنگ گلیوں سے تیزی سے بھگاتے ہوئے کہیں لے جارہے تھے۔ وہ لوگ چپ چاپ بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے گاڑی کی پچھلی سیٹ پرکس کر بٹھا دیا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ لوگ کون تھے اور مجھے کہاں اور کیوں لے جارہے تھے۔ میں نے پہلی مرتبہ بات کی اور کہا ’’میرے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے جو تاوان دیکر مجھے آپ کے چنگل سے چھڑا کرلے جائے اور پھر میری اوقات دوٹکے کے برابر بھی نہیں ہے‘‘۔کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد لگا کہ وہ مجھے شہر سے باہر لے آئے تھے موڑ کاٹنے کے بعد دس پندرہ منٹ تک گاڑی کنکریٹ بچھے ہوئے راستے پر چلنے کے بعد ایک جگہ رک گئی۔ کوئی گاڑی سے نہیں اترا۔ میں نے دوچار لوگوں کو کنکریٹ پر چلتے ہوئے گاڑی کے قریب آتے ہوئے محسوس کیا۔ گاڑی کے قریب آکر میں نے کسی کی آواز سنی ’’کسی غلط آدمی کو اٹھا کر تو نہیں لائے ہو؟‘‘۔گاڑی میں بیٹھے ہوئے ایک آدمی نے کہا ’’نہیں سر۔ تصدیق کرنے کے بعد ہم اسے اٹھاکر لے آئے ہیں‘‘۔

بات نکلی ہے، تواب دور تلک جائے گی۔ اس کے لیے آپ کو اگلے منگل کا انتظار کرنا پڑے گا۔

تازہ ترین