• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ورلڈ اکنامک فورم کا اجلاس سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیوس میں ہر سال کی طرح امسال بھی شان و شوکت سے منعقد ہوا۔ اجلاس کے بعد جو رپورٹ جاری کی گئی اس میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ عالمی معیشت بتدریج مندی کی طرف مائل ہے۔ موسمی تغیرات میں توقعات سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ سائبر ایبس ٹیکنالوجی آئندہ نسلوں کے لئے تشویشناک صورت اختیار کرسکتی ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں پرتشدد مظاہروں اور اجتماع کا سلسلہ جاری ہے جس میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ عالمی سطح پر غربت اور امارت کے مابین فرق بڑھتا جارہا ہے۔ 

معاشروں میں ناہمواری بڑھتی جارہی ہے۔ جاری تشویشناک صورت حال کا تقاضا ہے کہ اس کے لئے فوری اقدام کیا جائے۔ عالمی برادری کے اختلافات بڑھ رہے ہیں، وہ متحد نہیں ہے متعلقین کو ضروری اقدام کرنا ہوں گے ،تاکہ بے چینی، مایوسی اور ناہمواری کا سدباب کیا جاسکے۔ حالیہ اجلاس میں فورم کا نیا منشور بھی جاری کیا گیا، جس کو چوتھے صنعتی آنقلاب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ منشور میں کہا گیا ہے کہ کمپنیاں اپنے جائز ٹیکس پابندی سے ادا کریں۔ کرپشن کو قطعی برداشت نہ کیا جائے اور اس کو صفر کی سطح پر لایا جائے۔ انسانی حقوق کی سختی سے پابندی کی جائے، مسابقت میں حقوق کی پاسداری کی جائے۔

دنیا کے بیشتر ممالک کے دانشور نام ور صحافی اور شخصیات کا کہنا ہے کہ، ورلڈ اکنامک فورم درحقیقت دنیا کے امیر ترین اور اجارہ دار سرمایہ داروں کا کلب ہے جو ہر سال ڈیوس میں جمع ہوتے ہیں۔ مل بیٹھ کر کھاتے پیتے ایک دوسرے سے جدید دنیا کے بارے میں خیالات اور معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ کانفرنس میں شریک امیر ترین شخصیات کو سفید بیج تقسیم کیا جاتا ہے وہی مرکزی اجلاس میں شرکت کرسکتے ہیں دیگر شخصیات کواجلاس میں شرکت کی اجازت نہیں ہوتی وہ اس مقصد کے لئے اپنے ہوٹلز کے ہال پر اکتفا کرتے ہیں۔ سماجی اور فلاحی موضوعات پر عام اجلاس ہوتے ہیں، جس میں غیرسرکاری تنظیموں کے سربراہ، فیشن ہائوس، میڈیا ہائوسز فلم، اسٹیج، ادب، تعلیم اور صحافت کی بڑی شخصیات شرکت کرتی ہیں۔

ورلڈ اکنامک فورم کا قیام 1971میں عمل میں آیا جس کا مقصد بتایا گیا کہ، دنیا میں غربت کے خاتمے، معیشت کو بہتر بنانے اور فلاحی امور پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ ہر سال اس فورم کا اجلاس ڈیوس میں ہی ہوتا ہے۔ حالیہ اجلاس میں برطانیہ کے وزیراعظم 239شخصیات کے ساتھ شریک ہوئے مگر ان میں کوئی وزیر شامل نہیں تھا۔ 

بورس جانسن نے ان کی شرکت پر پابندی کردی تھی۔ڈیوس کی فضائوں میں نجی ہیلی کاپٹروں کی آمد و رفت، الپائن کی برفیلی پہاڑیوں پر مہمانوں کی اسکیٹنگ، مہنگی ترین دعوتیں، پارٹیاں، رنگ برنگی روشنیاں اور ہر طرف مہنگی خوشبو کانفرنس کا طرہ امتیاز ہوتی ہیں۔ کانفرنس کی انتظامیہ کہتی ہے دنیا کی اہم اور معزز شخصیات کو یکجا کرنے کے لئے یہ سب ضروری ہوتا ہے۔

فنانشل ٹائمز کے چیف مارٹن ولف کا کہنا ہے کہ، عالمی اشرافیہ کے اراکین سب کی دسترس سے دور رہتے ہیں جو ان کی فطرت ہے۔ انہیں دنیا والوں کی پروا نہ سہی مگر دنیا والوں کو ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ اشرافیہ ہر سال ایک دوسرے سے ملتی ہے اور تجاویز کا تبادلہ کرتی ہے ایک دوسرے کے خیالات سے آگہی حاصل کرکے اپنی نئی منصوبہ سازی کرتی ہے، جس کا ایک ہی مقصد ہے ،منافع کمانا اور زیادہ منافع کمانا۔ تاہم کانفرنس اپنے ایجنڈے میں انسان دوستی کو بھی نمایاں کرتی ہے اس لئے بیشتر اجارہ دار کمپنیوں اور کارپوریشن کے سربراہ دنیا میں ترقی پذیر ممالک کے لئے وائرل بیماریوں کی روک تھام کے لئے ٹیکے لگانے، دوائی کے قطرے پلانے پر توجہ دیتی ہیں۔ 

بیشتر فائونڈیشنز اور غیر سرکاری تنظیمیں جو اس حوالے سے دنیا میں کام کررہی ہیں ان میں زیادہ تر تنظیمیں کچھ فلاحی کام کرتی اور کچھ اپنے ڈونرز کے مفادات کی تکمیل کے لئے بھی کام کرتی ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کی تقریر پر شرکاء نے زیادہ نکتہ چینی کی ،کیوںکہ صدر ٹرمپ نے امریکاکی معیشت میں غیرمعمولی استحکام اور بہتری کے دعوے کئے، بیروزگاری میں نمایاں کمی کا ذکر کیا، اس کے ساتھ ہی انہوں نے سوئیڈن کی کم سن طالبہ گریٹا تھنگبرگ کی ماحولیات پر کی گئی تقریر کا مضحکہ اڑایا صدر ٹرمپ نے کہا، ماہرین ماحولیات کی پیش گوئیاں دہائیوں سے غلط ثابت ہوئی ہیں۔ صدر ٹرمپ کے ریمارکس پر پیشتر شخصیات نے تنقید کی۔ 

جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے بڑے صنعتی اداروں، کارپوریشنز کے سربراہوں اور سیاست دانوں کو خبردار کیا کہ، لیبیا میں حالات تشویشناک ہیں اور وہ دوسرا شام بن سکتا ہے۔ معروف امریکی ارب پتی جارج مورس نے اپنی تقریر میں کہا کہ آج دنیا ایسے مقام پر کھڑی ہے جہاں جمہوری معاشروں اور موسمی تغیرات میں شدت سے انسانی تہذیب کو بڑے خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے صدر ٹرمپ، چینی صدر شی جن پنگ اور بھارتی وزیراعظم پر شدید نکتہ چینی کی۔

مختصر یہ کہ ورلڈ اکنامک فورم کے اہم اراکین جن کی تعداد بہت ہی کم ہےجو دنیا کی ستر فیصد دولت پر قابض ہیں۔ ملٹی نیشنل ادارے، کارپوریشنز اور بڑے بینکار سود اور منافع میں اضافہ پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ انہیں عالمی برادری سے کوئی لگائو نہیں ہے۔ صرف اپنے مفادات کی تکمیل سے سروکار ہے ،ان کے ہر بیان کے دو مطلب نکلتے ہیں۔ سچ سے انہیں لگائو نہیں۔ دنیا کے نوے فیصد مسائل کے یہ اجارہ دار سرمایہ دار خاندان ذمہ دار ہیں۔ ان کی فلاحی تنظیمیں بھی ان کی فلاح میں زیادہ سرگرداں رہتی ہیں۔ ماحولیات پر مگرمچھ کے آنسو بہائے جاتے ہیں اور اس کو مزید بگاڑتے جارہے ہیں۔

تازہ ترین