میر تقی میرؔ جب لکھنو چلے ، تو گاڑی کا کرایہ بھی پاس نہ تھا۔ ناچار ایک شخص کے ساتھ شریک ہو گئے۔ دلّی کو خدا حافظ کہا، تھوڑی دور آگے چل کر اس شخص نے کچھ بات کی، یہ اس کی طرف سے منہ پھیر کر ہو بیٹھے، کچھ دیر کے بعد پھر اس نے بات کی،
میر صاحب، چیں بہ چیں ہو کر بولے, صاحب قبلہ! آپ نے کرایہ دیا ہے، بے شک گاڑی میں بیٹھے، مگر باتوں سے کیا تعلق؟
اس نے کہا ! حضرت کیا مضائقہ ہے، راہ کا شغل ہے، باتوں میں ذرا جی بہلتا ہے۔
میرؔ صاحب بگڑ کر بولے،خیر آپ کا شغل ہے، میری زبان خراب ہوتی ہے۔
لکھنو پہنچ کر جیسا کہ مسافروں کا دستور ہے، ایک سرائے میں اترے، معلوم ہوا آج یہاں مشاعرہ ہے۔ رہ نہ سکے، اسی وقت غزل لکھی، اور مشاعرہ میں شامل ہوئے، ان کی وضع قدیمانہ تھی۔ کھڑکی دار پگڑی، پچاس گز کے گھیر کا جامہ، اک پورا تھان کمر سے بندھا، ایک رومال پٹڑی دار تہہ کیا ہوا اس میں آویزاں، کمر میں ایک طرف تلوار، دوسری طرف کٹار، ہاتھ میں جریب۔غرض جب داخل محفل ہوئے تو وہ شہر لکھنو ، نئے انداز ، نئی تراشیں، بانکے ٹیڑھے جوان جمع، انہیں دیکھ کر سب ہنسنے لگے، میرؔ صاحب بیچارے غریب الوطن، زمانے کے ہاتھ سے پہلے ہی دل شکستہ اور بھی دل تنگ ہوئے اور ایک طرف بیٹھ گئے۔ شمع ان کے سامنے آئی، تو پھر سب کی نظر پڑی۔ بعض اشخاص نے سوچا، حضور کا وطن کہاں ہے؟ میرؔ صاحب نے فی البدیہہ کہا:
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے، ہنس ہنس پکار کے
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کے ویرانہ کردیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
سب کو معلوم ہوا۔ بہت معذرت طلب کی ، صبح ہوتے ہوتے شہر میں مشہور ہو گیا کہ میرؔ صاحب تشریف لائے ہوئے ہیں، رفتہ رفتہ نواب آصف الدولہ مرحوم نے سنا اور دو سو روپیہ مہینہ کر دیا۔
(مولانا محمد حسین آزاد ؔکی کتاب ’’آبِ حیات‘‘ سے ماخوز)