• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خدا کی اس خوبصورت دھرتی پر بے شمار لوگ آئے اور چلے گئے۔بہت سے طاقتوربادشاہ آئے جنہوں نے دھرتی کوانسانوں کے خون سے لہولہان کر دیا لیکن وہ ظلم و ستم کرنے کے باوجود ہار گئےجبکہ امن، محبت ، برداشت اور بھائی چارے کا درس دینے والے مرنے کے بعد بھی ہمیشہ کیلئے امر ہو جاتے ہیں۔ یہ خیالات مجھے دور جدید میں عدم جارحیت (اہنسا)کا درس دینے والے عظیم مہاتما گاندھی جی کی برسی کے موقع پر ذہن میں آرہے ہیں جنہیں ایک شدت پسند نے آج کے دن 30جنوری1948ء کو صرف اس بناء پر موت کے گھاٹ اتار دیا کہ وہ اکثریت اقلیت کی تفریق سے بالاتر ہوکر سب انسانوں کیلئے امن کی بات کرتے تھے، وہ ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے، گاندھی جی کا قائداعظم سے دوستی اور احترام کا رشتہ تھا، وہ پاکستان اور اقلیتوںکے دوست تھے ،وہ نہیں چاہتے تھے کہ مذہب کی بنیاد پر کسی کو بھی نفرت کا نشانہ بنایا جائے یا جائز حق سے محروم رکھا جائے۔اسی طرح دنیابھر میں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کا نام بہت ادب احترام سے لیا جاتا ہے، یہ وہ عظیم شخصیت ہے جس نے صدیوں سے امریکہ میں بسنے والے سیاہ فام اقلیتوں کیلئے برابری کی بات کی ، امریکی معاشرے میں ان کےشہری حقوق کے تحفظ کیلئے جدوجہد کی،سیاہ فام امریکیوں کو قومی دھارے میں لانے کیلئے پرامن تحریک چلائی، ویتنام جنگ کی پرزور مخالفت کرتے ہوئے معصوم انسانوں کا خون بہانے سے باز رہنے کی تلقین کی ۔ بدقسمتی سے مارٹن لوتھرکنگ کا انجام بھی گاندھی جی جیسا ہی ہوا اور انہیں بھی شدت پسندوں نےقتل کر دیا ۔ تیس جنوری کو گاندھی کو قتل کیا جاتا ہے اور چار اپریل کو مارٹن لوتھر کنگ کو اگلے جہاں روانہ کردیاجاتا ہے،انہی تاریخوں کو مدنظر رکھتے ہوئے لگ بھگ 22برس قبل امریکہ میں مقیم گاندھی جی کے پوتے ارون مانی لال گاندھی نے تجویز پیش کی کہ ان دونوںعظیم شخصیات کے وفات کے درمیان چونسٹھ دن کا جو عرصہ ہے ، اسے سیزن فار نان وائلئنس کے طور پر منایا جائے۔دنیا بھر کے امن پسند حلقوں میں اس تجویز کو بہت سراہا گیا ، اس سیزن کی عالمی امن کیلئے اہمیت کو سمجھتے ہوئے پوری دنیا میں مختلف تقریبات منعقد کی جاتی ہیں ، تعلیمی اداروں میںاور میڈیا کے ذریعے معاشرے کے مختلف طبقات کو قریب لایا جاتا ہے اور دوطرفہ غلط فہمیاں دور کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔میں اس امر سے اتفاق کرتا ہوں کہ بجائے ایک دن منانے کے اگر ہم تیس جنوری سے چار اپریل تک کے چونسٹھ دنوں کوسالانہ بنیادوں پرعدم جارحیت کے نام کریں تو ہم اپنی شخصیت میں نمایاں مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں،دو ماہ کے اس عرصے میں غصہ ، ناامیدی، فریسٹریشن جیسے دیگر منفی جذبات پر قابوپاتے ہوئے اپنے آپ کو ایک اعلیٰ انسانی اوصاف کی حامل شخصیت میں ڈھالنے کا عمل بھی ممکن ہوسکتا ہے۔ مثلاََسیزن فار نان وائلئنس کے پہلے دن(تیس جنوری)کا یہ درس ہے کہ ہر انسان کو اپنے اندر ہمت، حوصلہ پیدا کرنا چاہئے اور اگر یہ

یقین اپنے دل میں بٹھا لے کہ خدا میرے ساتھ ہے تو وہ ہر قسم کے چیلنج پر قابو پا سکتا ہے ، خدا پرکامل یقین انسان کو زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کیلئے ہمت و حوصلہ عطا کرتا ہے۔ دوسرے دن کے پیغام کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو تمام مشکلات، پریشانیوں اور ہر قسم کے حالات کاسامنا مسکراتے ہوئے کرنا چاہئے ، یادرکھیںدنیا میں وہی لوگ عظیم کہلاتے ہیں جو مشکلات سےنہیں گھبراتے اورچیلنجوں کا مقابلہ ایک مسکراہٹ کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کرتے ہیں ، جو لوگ ہمت ہار کردنیا کی پریشانیوں سے دل برداشتہ ہو جاتے ہیں ،وہ پیچھے رہ جاتے ہیں اور مختلف ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر اپنی زندگی خراب کر لیتے ہیں۔اسی طرح چونسٹھ دنوں پر مشتمل سیزن فار نان وائلنس کے دیگر ایام کے پیغامات کے مطابق اگر کوئی دوسرا شخص اچھا کام کررہا ہے تو ہمیں اس کی دل کھول کر تعریف کرنی چاہئے، ہمیں سمجھنا چاہئے کہ دنیا کے ہر زخم ، درداور تکلیف کا ایک دن خاتمہ ہوجاتا ہے، انتقام کی آگ میں جلنے والوں کی نسبت خدا کی رضا کیلئے معاف کرنے والے لوگ ہمیشہ خوش رہتے ہیں، ہمیں اپنے رویوں میں اچھےسلوک اور عزت و احترام کو خصوصی اہمیت دینی چاہئے۔ مہاتماگاندھی جی کی اہنسا کی تعلیمات پر مبنی سیزن منانے کا مقصد سادہ طرز زندگی،صبر وتحمل، برداشت، فروغِ تعلیم،آزادی اورسماجی ہم آہنگی کواپنے کردار کا حصہ بنانا ہے۔افسوس کا مقام ہے کہ برصغیر کے دونوں اہم ممالک پاکستان اور بھارت نے اپنے اصل رہنماؤں قائداعظم اور گاندھی جی کی دوستی کو بھلا دیا ہے، میری نظر میں آج دونوں طرف چند ایسے عناصر طاقت پکڑ رہے ہیں جو امن، بھائی چارہ اور اصولی سیاست کو مشعل راہ بنانے کےبجائے شدت پسندی کی راہ پر گامزن ہیں۔ تیس جنوری کوبطور محب وطن پاکستانی ہمیں یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہم دنیا میں ، اپنے معاشرے میں امن کے قیام کے لئےکی جانے والی کوششوں کا آغاز اپنی ذات سے کریں گے،آج ہمیں خودسے وعدہ کرنا چاہئے کہ چاہے ہمیں کیسی بھی کٹھن مشکلات کا ہمیں سامنا کرنا پڑے ، ہم کسی صورت اپنے رویوں کو جارحانہ نہیں بنائیں گے اور زندگی کے ہر موڑ پر گالم گلوچ اور غصہ کے اظہار سے پرہیز کریں گے، ہم جذبات اور جلدبازی میں فیصلے کرنے کی بجائے سمجھداری اور دوراندیشی سے کام لیں گے، ہم امن، بھائی چارہ کی اپنی خواہش کوناقابلِ تسخیر طاقت میں تبدیل کریں گے، ہم پرامن متحد جدوجہد کی بدولت دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرآگے بڑھیں گے ،اگر ہم اپنے اس عہد پر قائم ر ہیں تو مجھے یقین ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ترقی و خوشحالی کی منزل سے دور رہنے پر مجبور نہیں کرسکتی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین