• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مہنگی روٹیاں، سستی روٹی، دو روپے کی روٹی، بارہ روپے کی روٹی، سستا تنور، مہنگا تنور، اف اللّٰہ! گزشتہ کئی سالوں سے یہی رٹے رٹائے فقرے سن رہی ہوں۔ آج میں نے کہا، کل سے آدھی روٹی کھائوں گی۔ بیٹے نے کہا، آپ تو پہلے ہی آدھی روٹی کھاتی ہیں۔

وہ دیکھیں نا، ڈاکٹر بوگھیو کا نوکر صبح چار پراٹھے کھاتا ہے مگر لنگر خانوں میں صحیح کہا جاتا ہے جو ایک روٹی سے زیادہ مانگے، اسے چپ کرا دیا جاتا ہے۔ ہمارے بہت سے بھولے لوگ لنگر خانے کو گھر سمجھ کر رہنا شروع کر دیتے ہیں۔

دو دن بعد جب کہا جاتا ہے جائو بھئی اپنے گھر، یہ آپ کا گھر نہیں ہے۔ وہ جب کہتے ہیں کہ میرے گھر میں ایسا لحاف اور سالن نہیں ہے تو بھولے بادشاہوں کو سمجھایا جاتا ہے کہ ’’چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات ہے‘‘ ہمارے کسی لنگر خانے میں کبھی کوئی شخص نہیں آتا، وہاں چوکیدار بڑی خوشی سے تالہ لگا کر، لمبی تان کر سو جاتا ہے۔

یہ لنگر خانے، بالکل سستی روٹی منصوبے کی دوسری شکل ہیں۔ پنجاب کے سارے بڑے شہروں میں دو روپے کی روٹی کے اشتہار تنوروں پر لگائے گئے اور کوئی چھ ماہ تک یہ سستی ر وٹی خوب چلی پھر برا ہو ان اخبار والوں کا کہ خبر دی یوں روٹی دینے سے سرکار کو کتنا نقصان ہو رہا ہے، اس خبر کو تو پَر لگ گئے، اگلے دن سے سستی روٹی بند، ابھی تو ہم لنگر خانوں کا شوربہ چکھ رہے ہیں۔

جب بینظیر پروگرام کی طرح اس کا تجزیہ ہوگا تو پھر پتا چلے گا کہ لنگر خانوں میں کھانا لانے والوں کے گھر میں دو دو چپڑی روٹیاں جا رہی ہیں۔

میں نے داتا دربار جہیز کمیٹی میں بہت عرصہ کام کیا ہے۔ جتنی خواتین اس کمیٹی میں تھیں، ان کے گھر کبھی بریانی، کبھی زردہ اور کبھی قورمہ وافر مقدار میں موجود ہوتا تھا، بھئی نصیب اپنے اپنے، ہمارے یہاں آج آٹے کی دُہائی ہے تو کل چینی کی ہو گی۔ وہ جائے گی تو پھر بجلی، پٹرول، اور گیس کا رونا تو سارا سال چلتا رہتا ہے۔

اخبار والے بھی کوئی خبر نہ ہو تب بھی کسی خاتون یا نانبائی کا انٹرویو بناکر جگہ پُر کر لیتے ہیں۔ جب سوچنے لگو تو ماضی کی طرف ذہن چلا جاتا ہے۔ وہ کیا دن تھے، ہماری تنخواہ 275روپے ماہانہ تھی۔

بھئی کلاس ون افسر تھے۔ پھر 350ہو گئی، گوشت بکری کا 4روپے کلو، گائے کا بارہ آنے کلو اور ڈالر بھی چار روپے کا تھا۔ اس ساڑھے تین سو روپے میں بچوں کی فیس بھی چلی جاتی تھی اور گھر کا کرایہ بھی، پھر بھی بچوں کو کبھی کبھار آئس کریم کھلانے کیلئے لے جاتے تھے۔

تب تک بس پر دفتر جاتے تھے کہ موٹر سائیکل اور رکشہ بعد کی پیداوار ہیں۔ تنخواہ اور بڑھی تو قسطوں پر موٹر سائیکل خریدی مگر اس پر تو صاحبِ خانہ جاتے تھے۔ گھر کی مزدور اپنی اوقات پر رہی۔ بس اور تانگے کا سفر جاری تھا۔ اب اور ترقی ہوئی، دفتر میں گاڑی تھی مگر وہ صرف دفتر یا ایمرجنسی کیلئے استعمال ہوتی تھی۔ اب بھی مالی صورتحال ایسی تھی کہ قتیل شفائی کے دوست کی لنڈا بازار کی دکان میں چھانٹ کے رکھے ہوئے کپڑے خرید کر، دھو کر بچوں کیلئے درزی سے ان کے سائز کے بنوا لیتے اور خود وہی کوٹ اور سویٹر پہن کر خوش رہتے تھے۔

پاک ٹی ہائوس جاتے، لوگ دو کباب اور ڈبل روٹی کا آرڈر دیتے۔ ساتھ میں بوتل میں ٹماٹو کیچپ آ جاتی۔ یار دوست ان دو کبابوں اور ٹماٹو کیچپ کے ساتھ پوری ڈبل روٹی کھا جاتے۔ تھوڑے بہت پیسے اب مشاعروں سے بھی ملنے لگے تھے۔ بعض شاعروں کے گروپ بنے ہوئے تھے، سب شاعروں کے پانچ سو، وہ دس ہزار کی رقم میں سے بقایا اپنے لئے رکھ لیتے تھے۔ 65کی جنگ سے پہلے فاطمہ جناح ایوب خان کے مقابلے پر الیکشن کیلئے کھڑی ہوئیں۔ اس زمانے میں آج کے زمانے کی طرح آٹے کا بحران اور چینی کی قیمت 4آنے بڑھی تھی۔

آٹا 20روپے من ہوا تھا، جالب نے نظم لکھی اور فاطمہ جناح کے جلسے میں موچی دروازے میں پڑھی، بیس روپے من آٹا، صدر ایوب زندہ باد، اب پی ایل 480کے تحت امریکی گندم اور ڈالر کی تجارت ایسے پھیلی کہ جو لوگ جھاڑو بھی دوسروں کے گھروں سے مانگتے تھے، ان کے گھروں کے باہر گاڑیاں ہی گاڑیاں تھیں، قیمتیں بھی خوب چڑھیں۔ تنخواہ کے نئے گریڈ مل گئے۔ دفتروں کے ذریعے گاڑیاں بھی ملنے لگیں۔

پلازے بننے لگے، سینما ہائوس اور وی سی آر خوب چلے، پھر چار دن کی چاندنی، ضیاء الحق کے زمانے میں سینما ہائوس ٹوٹ کر پلازے بننے لگے، امریکی ڈالر اور طالبان ساتھ ساتھ عروج حاصل کرتے گئے، بہت افسر اور وزیر باہر کے ملکوں میں جائیداد بنانے لگے۔ منشیات کا کاروبار، دونوں ملکوں یعنی پاکستان اور افغانستان میں خوب پھیلا۔ پہلے جو لوگ صرف مری گرمیوں میں جاتے تھے وہ گرمیوں میں یورپ جانے لگے۔ یوں رشوت یا منی لانڈرنگ کے نام پر، ہم سب کو ملک خوشحال دکھایا گیا۔ باقی کا احوال آپ کے سامنے ہے۔

یہ سب آخر کیوں یاد آیا، دراصل ہمارے وزیراعظم اب کبھی کبھی کتاب پڑھ لیتے ہیں تو اس کا بہت ذکر کرتے ہیں۔ انہوں نے آج کل مہاتیر محمد کی کامیابیوں اور ناکامیوں کے بارے میں پڑھا ہے۔

مقابلہ اپنے دورِ حکومت سے کرنے لگے ہیں۔ یہ کیوں یاد نہیں کہ 20سال پہلے کے ملائیشیا، پھر مہاتیر کی حکومت فیل ہونے کی وجوہات، پھر 20برس بعد ادھر ڈوبے، ادھر نکلے، کی طرح سامنے آنے والے ملک میں کون کونسی سیاسی، خرابیاں اس جگہ پہنچیں کہ قوم کو ’’تیری یاد آئی‘‘ مہاتیر نے جو قانونی، معاشرتی سطح پر تیس برس پہلے کام کیا تھا اس کو ’’دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو‘‘ کرنے کیلئے کیا تگ و دو کرنا پڑ رہی ہے۔

پھر بھی ترقی یافتہ ملک کو ابتری سے نکالنے سے اس لئے تقابل نہیں ہو سکتا کہ ہم تو 155روپے کا ڈالر ہاتھ میں لیے بیٹھے ہیں۔ دفتروں میں سوائے اسٹاف کی تنخواہ کے، فنڈز نہیں ہیں۔ کیسے بنیں گی، یونیورسٹیاں تو دور کی بات ہے ڈھائی کروڑ بچوں کیلئے اسکول کیسے بنیں گے!

تازہ ترین