• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ساتھیو! ایک ایسی بو جسے پہچاننے میں ہمیں دوسرا سکینڈ نہیں لگتا۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر کسی کو یہ بو پسند ہی آئے لیکن جیسے ہی وکس کی شیشی کا ڈھکنا ہٹتا ہے آپ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کیا چیز ہے۔

129 برس قبل بنایا جانے والا یہ مرہم آج بھی اتنا ہی مقبول ہے اور پاکستان اور انڈیا ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں لوگ سردی، زکام، کھانسی، سوکھے ہونٹ یا کیڑے کے کاٹے کا علاج اسی چھوٹی سی ڈبیا میں تلاش کرتے ہیں۔

آخر وکس کی خود اپنی کہانی ہے کیا؟ یہ کہاں سے آئی اور اتنی ہردلعزیز کیسے بن گئی؟ ہوا کچھ یوں کہ 19ویں صدی کے آخر میں ایک امریکی فارماسسٹ اور موجد لنسفرڈ رچرڈسن کو ایک اچھوتا خیال آیا۔شمالی کیرولائنا میں 1854 میں پیدا ہونے والے رچرڈسن کو کیمیا میں گہری دلچسپی تھی اور یہی مضمون ان کی قسمت میں تبدیلی کی وجہ بنا۔

1880 میں وہ اپنے بہنوئی ڈاکٹر وک کے ساتھ ان کے مطب میں کام کرنے لگے۔ ڈاکٹر صاحب مریضوں کو دیکھتے تھے اور رچرڈسن ان کے لیے ادویات تیار کرتے تھے۔

اسی دوران انہوں نے تجربات شروع کر دیے۔ تقریباً ایک دہائی بعد وہ اپنی لیب میں تیار ہونے والی مختلف ادویات ‘وک’ کے خاندانے نسخوں کے نام سے بیچنے لگے۔ انھوں نے 21 دواؤں کے پیٹنٹ بھی اپنے نام کروائے۔

رچرڈسن کے پڑپوتے برٹ پرایر مطابق ‘ان کے ایک بچے کو بہت سخت کھانسی اور زکام تھا۔ ایک دوا ساز ہونے کے ناتے وہ مختلف تجربات کرنے لگے۔ ان تجربات میں جاپانی نسخے بھی شامل تھے اور انہی تجربات کے نتیجے میں اس جادوئی مرہم کی تخلیق ہوئی۔اس نئی دوائی کو استعمال کرنے والے افراد اس کے غیر معمولی اثرات سے حیران تھے۔

اس دوا کا استعمال ویسے ہی ہونے لگا جیسے آج کل اینٹی فلو ادویات استعمال ہوتی ہیں۔ اسے مریض کے سینے پر ملنا ہوتا تھا تاکہ سانس لینے پر اثر سیدھے پھیپھڑوں تک پہنچے۔

وکس میں مینتھال، کافور اور یوکلپٹس کے تیل کے علاوہ چند اور مفید تیل پیٹرولیم جیلی میں گھلے ہوتے ہیں۔ 1911 میں اس بام کو ‘وکس ویپورب’ نام دیا گیا۔ اور آج بھی دنیا اس بام کو اسی نام سے جانتی ہے۔

آہستہ آہستہ اشتہارات کی مدد سے وکس ویپورب کی فروخت میں اضافہ ہوا لیکن اسی درمیان سپین میں فلو کی ایسی وبا پھیلی کہ 1918 سے 1919 کے درمیان سیکڑوں کی تعداد میں امریکی بھی ہلاک ہو گئے۔

اس وقت وکس ویپورب کی بازار میں مانگ اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ اسے بنانے والی فیکٹری کو چوبیسوں گھنٹے، دن اور رات، کام کرتے رہنا پڑا۔

لیکن اسی دوران رچرڈسن کی نمونیا سے موت ہو گئی۔ ان کے بعد ان کا خاندان کاروبار کو بڑھاتا رہا۔ 1980 میں ’پروکٹر اینڈ گیمبل‘ نے اسے خرید لیا۔ آج بھی وہ ہی اس کے مالک ہیں۔آج کی تاریخ میں وکس ویپورب دنیا کے 71 ممالک میں مختلف ٹریڈ مارکس کے ساتھ فروخت ہوتی ہے اور کمپنی کا کہنا ہے کہ صرف یورپ میں ہی ہر سال اس کی 2.3 کروڑ شیشیاں بک جاتی ہیں۔

تازہ ترین