• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سارے شہر اپنے طور پر ترقی کررہے ہیں۔ اس میں حکومت اور ریاست کا اتنا دخل نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ ایک تشویش بھی کہ زرعی زمینیں تیزی سے رہائشی تجارتی آبادیوں میں منتقل ہو رہی ہیں۔ کوئی منصوبہ بندی ہے نہ توازن۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں آگے بڑھنے میں تعاون کے بجائے رکاوٹیں زیادہ ڈالتی ہیں۔

بلدیاتی اداروں کو مفلوج کردیا گیا ہے مگر ہمارے عوام جفاکش ہیں، محنت سے نہیں گھبراتے۔ اس لیے شہر پنجاب کے ہوں، سندھ کے، بلوچستان کے یا خیبر پختونخوا کے، جب کبھی جانا ہو تو کچھ نہ کچھ نیا ضرور ملتا ہے۔

شاہراہیں البتہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ایسی تعمیر کردی ہیں کہ فاصلے بہت کم ہو گئے ہیں۔

اس وقت ہم سندھ کے تاریخی شہر سن میں جلال محمود شاہ صاحب سے ان کے ایک کزن کی رحلت پر تعزیت کررہے ہیں۔ جی ایم سید کے پوتے امیر حیدر شاہ کے صاحبزادے دو روز پہلے دنیا چھوڑ گئے ہیں۔ دریائے سندھ کے کنارے سن بہت ہی خوبصورت شہر، لوگ بہت ملنسار، محبت کرنے والے، راستہ پوچھیں تو بڑی محبت سے سمجھاتے ہیں۔

اس شہر میں گزشتہ صدی میں کئی بار حاضری ہوئی۔ سندھ اسمبلی میں پاکستان کے حق میں قرار داد پیش کرنے والے جی ایم سید بہت پڑھے لکھے، سیاست و ادب کے شناور، عالمی، علاقائی اور قومی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے، ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں، بہت کچھ سیکھا، اب تک نوجوانوں کے دلوں میں بستے ہیں، عقیدت مند آرہے ہیں، فاتحہ خوانی ہورہی ہے، اجازت لی جارہی ہے۔

میرپور خاص میں ہمیں گورنمنٹ لائبریری اور اس سے ملحقہ ثقافتی کمپلیکس دیکھ کر بہت خوشی ہورہی ہے۔ محکمہ ثقافت حکومت سندھ نے بڑے رقبے میں یہ عمارت قائم کی ہے۔ اسے اجرک ہال بھی کہا جاتا ہے۔ ہال میں سیمینار وغیرہ ہوتے رہتے ہیں۔

ایک گوشہ شہید بینظیر بھٹو کے نام سے موسوم ہے۔ ایک ہال ان نوجوانوں کیلئے جو سی ایس ایس کے امتحانوں کی تیاری کررہے ہیں۔ لائبریری میں کتابیں بڑی تعداد میں آنکھوں کا انتظار کرتی ہیں، وسعتیں ہیں، کشادہ دامنی ہے۔ میر پور خاص والے خوش قسمت ہیں کہ اتنا بڑا خزانہ ان کو میسر ہے، اور دروازے بھی کھلےہیں۔

سندھ میں اب ہمارے ہم عصر دانشوروں، صحافیوں اور سیاستدانوں کی دوسری تیسری نسل میدان میں آچکی ہے۔

جمہوریت کی بحالی کے لیےجدو جہد کرنے والے، جیلوں میں جوانی گزارنے والے، اب اپنے بیٹوں اور پوتوں کو عملی میدان میں دیکھ کر خوش ہیں۔ قومی اسمبلی کے سابق رکن، بھٹو صاحب اور بی بی کے سیاسی ساتھی سید خادم علی شاہ ہمارے لئے میرپور خاص کا حوالہ ساٹھ کی دہائی سے ہیں۔ میرپور خاص کی زمین بڑی زرخیز ہے۔

یہاں کے آم دنیا بھر میں پسند کیے جاتے ہیں۔ زمین کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے سید خادم علی شاہ حرف و معانی سے بھی قربت رکھتے ہیں۔ شعر و ادب کی سرپرستی کے ساتھ خود بھی مائی بختاور پر ایک کتاب اُردو سندھی انگریزی میں پیش کر چکے ہیں۔

اپنی زمینوں پر دیس دیس سے درخت لاکر لگاتے رہے ہیں۔ ان کے پاس سنہری یادوں کا ایک خزانہ ہے۔ اب ان کے صاحبزادے سید ذوالفقار علی شاہ سندھ اسمبلی کے رکن ہیں۔ اپنے علاقے سے، اپنے لوگوں سے پیار کرتے ہیں۔

جب ایک ٹرین میں آگ لگی اس میں میر پور خاص کے تبلیغی مرکز کے وابستگان زیادہ تھے، یہ ان کی میتیں لینے رحیم یار خان پہنچ گئے تھے۔ جواں سال ہیں، جواں عزم ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے کہ وہ اپنے حلقے کے غریبوں کی مشکلات دور کرنے میں آگے بڑھتے رہیں۔

ہماری نیاز مندی پیر غلام رسول شاہ جیلانی سے بھی رہی ہے۔ پھر ان کے صاحبزادے پیر آفتاب حسین شاہ جیلانی سے۔ جنہوں نے ملک بھر میں اسپورٹس میں کافی خدمات انجام دیں۔

شاہراہیں اچھی ہیں۔ میاں نواز شریف یاد آتے ہیں اور جنرل پرویز مشرف، جن کی توجہ سے یہ راستے بن گئے۔ کہیں بھی جانا ہو تو فاصلے منٹوں میں طے ہوجاتے ہیں۔ شادیوں میں بھی شرکت میں آسانی ہے۔ تعزیت میں بھی۔ زندگی ہے تو دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ شادی لان، شادی ہال چھوٹے شہروں میں بھی بڑے اعلیٰ پیمانے کے ہیں۔

اس لیے شادیاں مہنگی ہوتی جارہی ہیں۔ اچھی خاصی زمینیں ہوتے ہوئے بھی شادیاں شہر کے ہالوں میں کی جارہی ہیں۔ ٹنڈو آدم جو سجّی کے لیے مشہور ہے، یہاں جام کرم علی صاحب کی دعوت پر ایک شادی میں شرکت سے سندھ کی، نامور ہستیوں سے ملاقات ہوگئی۔

ملک ذوالفقار روشن اس شہر کی خدمت کررہے ہیں۔ تعلیم اور صحت کے اعلیٰ ادارے قائم کیے ہوئے ہیں۔ الحاج سلیمان روشن اسپتال میں کم آمدنی والے بیماروں کیلئے علاج کے کافی اخراجات اسپتال خود برداشت کرتا ہے۔

ترقی کے ساتھ ساتھ ایک تشویشناک مشاہدہ یہ بھی ہے کہ زرعی زمینیں تیزی سے کمرشل اور رہائشی آبادیوں میں منتقل ہورہی ہیں۔ شہروں میں داخل ہونے سے پہلے ہی مختلف ہائوسنگ اسکیموں کے بورڈ دکھائی دینے لگتے ہیں۔ ہرے بھرے کھیت ختم ہورہے ہیں۔

زمین کی قطعہ بندی ہورہی ہے۔ اس کی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ دُکھ ہوتا ہے جدی پشتی زمیندار اپنی محبوب زمین کیوں بیچ رہے ہیں۔ اس سے ہمیشہ کیلئے لا تعلق ہورہے ہیں۔ جہاں گندم اُگتی ہے، سرسوں کے پیلے پیلے پھول فضائوں کو حسین بناتے ہیں اب وہاں بے ہنگم آبادیاں ہوں گی۔

ہمیں گندم پہلے ہی درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔ جب سونا اُگلتے کھیت کالونیوں میں بدل جائیں گے تو گندم، چاول، گنا، کپاس، سبزیاں کہاں اگیں گی۔

ہمارے ماہرین معیشت کو، پلاننگ کمیشن کو کچھ سوچنا چاہئے۔ کوئی حد بندی ہونی چاہئے۔ روپے کے لالچ میں سارا منظر نامہ سارا تمدن بدلنا نہیں چاہئے۔ بہت سی زمینیں بنجر ہیں۔ سیم تھور میں مبتلا ہیں۔ وہاں آبادیاں بنائیں۔ زرخیز زمینوں کو تو کاشت کاری کیلئےرہنے دیں۔

اس تیزی سے بڑھتے رجحان پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ رہائش گاہوں کی یقیناً ضرورت ہے۔ آبادی بڑھ رہی ہے لیکن اس بڑھتی آبادی کو اناج کی حاجت بھی تو ہوگی۔ ان دونوں ضرورتوں میں توازن برقرار رکھنا ناگزیر ہے۔ یہ صرف سندھ میں ہی نہیں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بھی ہورہا ہے۔

تازہ ترین