عالمی منظر نامےکا جائزہ لیا جائے تو گزشتہ ایک ماہ سے ہمسایہ دوست ملک چین کی کرونا وائرس کے حوالے سے خبریں عالمی میڈیا پر چھائی ہوئی ہیں، میڈیا کے مطابق چینی صدر شی جنگ پنگ نے کرونا وائرس کو شیطان وائرس قرار دیتے ہوئے بھرپور مقابلہ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ،اسلام آباد میں متعین چینی سفیر یاؤ جنگ نے ایک انٹرویو میں آگاہ کیا ہے کہ چین میں تاحال اس جان لیواوائرس کی وجہ سے چار سوسے زائد افرادجان کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ متاثر ین کی تعداد 20 ہزار سے زیادہ ہے، کرونا وائرس نے متاثرہ علاقے ووہان میں مقامی باشندوں کے علاوہ پاکستانی طلباء و طالبات سمیت غیرملکیوں کوبھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، تاہم چینی سفیر کے مطابق حکومت چین کی اولین ترجیحات میںمہلک وائرس سے متاثر ہونے والوں کا علاج اور اس وائرس کو چین کے اندر اور بیرونی دنیا میں پھیلنے سے روکنا ہے۔ اس حوالے سے چینی حکومت نے بہت سے ٹھوس اقدامات بھی اٹھائے ہیں، مثلاََ چین میں لوگوں کی نقل و حرکت پر سخت پابندیاں عائد کردی گئی ہیں، وہاں کسی قسم کے عوامی اجتماعات نہیں ہو رہے اور چین کے شہریوں کو ملک سے باہر جانے سے پہلے کم از کم 14 دن تک الگ تھلگ رکھا جاتا ہے، میڈیا اطلاعات کے مطابق جان لیوا وائرس کاآغاز چین کے شہر ووہان میں واقع ایک جانوروں کی مارکیٹ سے ہواجہاں یہ انسانوں میں منتقل ہونے کے بعد پھیل گیا ، یہی وجہ ہے کہ چینی حکام کو نہ صرف سفری پابندیاں عائد کرنی پڑیں بلکہ وبائی پھیلاؤ روکنے کیلئے ووہان شہر کو مکمل طور پر سیل کردیا گیا۔ چین نے مہلک وبا کا مقابلہ کرنے کیلئے متاثرہ شہر ووہان میں ہنگامی بنیادوں پر اسپتال قائم کرلئےہیں اور اس موذی مرض کے بارے میں ریسرچ کا عمل کامیابی سے جاری ہے، یہ ایک اہم پیش رفت ہے کہ چین نے کرونا وائرس کے خلاف میڈیکل کٹ کامیابی سے تیار کرلی ہے اور اب تک پانچ سو سے زائد متاثرہ مریضوں کا علاج کیاجاچکا ہے۔وائرل بیماریاں زمانہ قدیم میں بھی پھیلتی رہی ہیں اور دورِ جدید کا انسان بھی اس کے وسیع پھیلاؤ کے سامنے بے بس نظر آتا ہے، وبائی امراض کی نوعیت اور پھیلاؤ کا طریقہ کار مختلف ہوسکتا ہے، کوئی وباء بہت خطرناک ہوتی ہے اور کوئی وقتی طور پر کم نقصان کی حامل ہوتی ہے، یہ انسان سے انسان کو یا پھر جانوروں سے انسان کو لگ سکتی ہیں لیکن بروقت تشخیص اور علاج معالجہ اس پر قابو پانے میں موثر ثابت ہوتا ہے۔ برطانوی جریدے دی انڈیپنڈنٹ نے اس سوال کا جواب کھوجنے کی کوشش کی ہے کہ کیا میڈیا کرونا وائرس کو ضرورت سے زیادہ کوریج دے رہا ہے؟ رپورٹ میں اعدادو شمار پیش کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ فلو سے ہر سال دنیا بھر میں کروڑوں لوگ متاثر ہوتے ہیں،امریکہ میں 2019ء میں دس ہزار افراد فلو سے ہلاک جبکہ ایک لاکھ 80ہزار اسپتال میں زیر علاج رہے،عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہرسال فلو سے تقریباً ساڑھے چھ لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں،یہ تعداد چین میں کرونا وائرس سے ہونے والی حالیہ اموات سے کئی گنا زیادہ ہے۔کرونا وائرس کا مقابلہ صرف چین کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری عالمی برادری کو چین کی مدد کیلئے آگے آناچاہئے، تاہم یہ بہت افسوسناک صورتحال ہے کہ عالمی طاقتیںانسانی ایشوز سے زیادہ اپنے مفادات کو ترجیح دیتی ہیں، جنگوں سے متاثرہ ممالک میں ہتھیاروں کے کاروبار کی خاطر تنازعات کو طول دیاجاتا ہے، اسی طرح بعض میڈیکل کمپنیوں پر بھی انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں کہ وہ خود نئی بیماریاں پیداکرتی ہیں اورپھر خود ہی ان کی ویکسین تیار کرکے منافع حاصل کرتی ہیں۔ چین میں کرونا وائرس کی وباء نے ان قوتوں کو عالمی سطح پر سرگرم کردیا ہے جو چین کی اقتصادی ترقی سے خائف نظرآتی ہیں، غیرملکی شہریوں کے چین سے انخلاء کی آڑ میں چین کا منفی تاثر قائم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، ایسی خبریں تواتر سے میڈیا کی زینت بن رہی ہیں کہ غیرملکی سرمایہ کار چین سے اپنا سرمایہ نکال رہے ہیں، عالمی طلبا و طالبات چینی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے سے کترا رہے ہیں، مختلف ممالک میں چینیوں سے امتیازی سلوک بھی روا رکھا جارہا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ چین کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو چینی قوم نے بے شمار چیلنجوں کا مقابلہ کیا ہے، مجھے قوی یقین ہے کہ چین مشکل کی اس گھڑی سے بھی سرخرو ہوکر نکلےگا۔تاہم بطور پاکستانی یہ امر میرے لئےباعث تشویش ہے کہ ہم نے ایسے مہلک امراض سے نبردآزما ہونے کیلئے کسی قسم کی تیاریاں نہیںکیں، دنیا کے بیشتر ممالک نے اپنے اسٹوڈنٹس کو چین سے واپس بلوالیا لیکن ہم اس معاملے میں بھی سب سے پیچھے رہے۔ آج پاکستان میں ہیلتھ اور ایجوکیشن کے شعبہ کی زبوں حالی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، گزشتہ73برس میں ہماری کوئی ایسی سائنسی ریسرچ عالمی جرنلز کا حصہ نہیں بنی جس سے انسانیت کا کوئی فائدہ ہوسکے۔اس وقت چین، جاپان، امریکہ، انڈیا اور دیگر ممالک کرونا وائرس پر قابو پانے کیلئے انتھک کوششیں کررہے ہیں، چند دن قبل تھائی لینڈ کے ڈاکٹروں نے فلو اور ایڈز کی ادویات سے کرونا وائرس کا توڑ کیاہے۔ پاکستا ن میں بھی کروناوائرس کے پھیلاؤ کے شدید خدشات لاحق ہیں لیکن ہم خوابِ غفلت میںمبتلا ہیں، جب تک پانی سر سے نہیں گزرتا ہم ہوش کے ناخن نہیں لیتے۔ پاکستان میں ماضی میں بھی شعبہ صحت میں قابل افسران اور ڈاکٹروں کو تعین نہیں کیا جاسکا اور آج بھی ہمیںایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے،موذی امراض پر قابو پانے کیلئے ہم کوئی اعلیٰ معیاری ریسرچ نہیں کرسکے ہیںاورنہ ہی کوئی کٹ نہیں بناسکے ہیں، ماضی کے 72سال بھی ایسے گزرے اور رواں برس بھی ایسا ہی گزر رہا ہے، ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم میڈیکل میں تشخیص اور علاج کے میدان میں کسی کا مقابلہ نہیںکرسکتے جبکہ ہمارے پڑوسی ممالک بھی ہم سے آگے نکل چکے ہیں؟یہ ہمارے لئےلمحہ ِفکریہ ہے اگر ہم غور کریں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647991)