• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

روکا نہیں جا سکتا

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں’’ سرچشمۂ ہدایت ‘‘کے متبرک صفحات موجود تھے۔ ’’اُسے کہنا دسمبر آ گیا ہے۔‘‘فاروق اقدس کی اچھی تحریر تھی۔ ’’لازم و ملزوم‘‘ سے ڈپٹی نذیر احمد سے متعلق سیر حاصل معلومات ملیں۔ لاہور دنیا کادوسرا آلودہ ترین شہر کیسے بنا، عبدالمجید ساجدنےاچھے موضوع پر لکھا۔ پہلے شمارےکے ’’اسٹائل‘‘ میں عالیہ کاشف کی اور دوسرے میں آپ کی تحریر تھی۔ مقدّس اوراق کے تحفّظ میں حکومت کی غیر سنجیدگی واقعی ایک لمحہ فکریہ ہے۔ کہی اَن کہی میں پاکستان کی صفِ اوّل کی کمپیئر، سدرہ اقبال کی کھری باتیں دل کو بھا گئیں۔ پروفیسر مجیب ظفر نے ہمیں مِس کیا، اُن کی محبت ہے۔ آپ انہیں ڈانٹا نہ کریں کہ ان کے قلم کو روکا نہیں کیا جاسکتا۔ (پرنس افضل شاہین ،نادر شاہ بازار ،بہاول نگر)

ج:کیوں روکا نہیں جاسکتا بھئی، اُن کاقلم ہے کہ فیصل واوڈا کی زبان یا آپا فردوس کی پریس ٹاک۔

صفحات پر کنٹرول نہیں!!

ہمارے سنڈے میگزین کی بات ہی نرالی ہے کہ اس میں سالِ گزشتہ سے منسوب کئی تحریریں، سلسلے نئے سال کے ابتدائی تین ماہ تک چلتے رہتے ہیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں جنگ ِبدر کی فتح کے بعد قریش مکّہ کی جگ ہنسائی اور ناقابلِ یقین شکست کا پڑھ کر بہت سکون ملا۔ نیز، موقع محل کے اعتبار سے بعض تحریریں بہت دل چسپ تھیں۔ جیسے فاروقِ اعظم کی وزیر مینشن کی کہانی اور راول پنڈی کے ’’لیاقت باغ‘‘ کی تاریخ۔ منور راجپوت ایک سفارش لے کر حاضر ہوئے، سفارش تھی، ’’یہ طلبہ مانگیں، یونین‘‘۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس میں برص کے دھبّوں کے وہم اور ذہنی تنائو کے خاتمے کے حوالے سے تحریریں شان دار تھیں۔ لگتا ہے ’’نئی کتابیں‘‘ اور ناقابلِ فراموش کے صفحات آپ کے قابو میں نہیں آرہے۔ ہر دو ہفتے بعد کتابوں کا مبصّر تبدیل ہو جاتا ہے، تو ناقابلِ فراموش بھی جب سے ہمایوں ظفر کو سونپا گیا ہے، مستقل نہیں آپارہا۔ (چاچا چھکّن،گلشن اقبال،کراچی)

ج: سارے صفحات ہمارے کنٹرول میں ہیں، کتابوں پر مختلف لوگوں سے تبصرے ارادتاً کروائے جارہے ہیں تاکہ اندازِ تحریر میں یکسانیت محسوس نہ ہو۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ سلسلے کے لیے اچھے واقعات موصول ہی نہیں ہورہے، تو ہم خود سے تو یہ سلسلہ ترتیب دینے سے رہے۔ بُھوت پریت کی کہانیوں پر پہلے بھی کافی اعتراضات ہوتے رہے ہیں، اور اب بھی زیادہ تر ایسے ہی اوٹ پٹانگ واقعات بھیجے جارہے ہیں۔

سیدھا دل میں اُترا

اشاعتِ خصوصی میں وزیر مینشن پر فاروق اعظم کی تحریر پڑھی، تصاویر دیکھیں۔ فاروق اقدس نے راول پنڈی کے تاریخی لیاقت باغ پر لکھا۔ دونوں مضامین لاجواب رہے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں طلبہ یونین کے حوالے سے منور راجپوت کا تجزیہ اچھا تھا۔ عالمی اُفق میں منور مرزا بورس جانسن کے ساتھ موجود نظر آئے۔ ناول اچھا جا رہا ہے۔ دوسرے شمارے کے عالمی اُفق میں ہمارے ہر دل عزیز منور مرزا، کوالالمپور کانفرنس پر بہترین تجزیے کے ساتھ آئے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا سلسلہ بہت پسند آرہا ہے۔ ڈاکٹر قمر عباس نے اس مرتبہ قراۃ العین پر کیا شان دار مضمون تحریر کیا۔ پڑھ کردل خوش ہوگیا۔ یادداشتیں میں آغا جان پر ڈاکٹر سمیحہ راحیل نے کیا دل سے لکھا کہ سیدھا ہمارے دل میں اُترا۔ پیارا گھر میں گاجر پر مضمون اچھا تھا، اور گرما گرم روٹیاں، پراٹھے بھی مزے کےلگے۔ اور آپ کا صفحہ تو بہت ہی اچھا جارہا ہے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

غُل خانی کیوں بن جاتی ہو ؟

سال2019ء کے 20 صفحاتی، آخری شمارے کے برف پوش پس منظر والے سرورق میں سمور کا کوٹ پہنے، سردی سےٹھٹھرتی ماڈل، دسمبر کی برفیلی ہوائوں میں بھی فوٹو گرافر کے ظلمِ کیمرا کے باوجود فُل میک اپ میں انتہائی مسرور ہے، تو چلو ٹھیک ہے، اُس کی مرضی۔ ’’عالمی اُفق‘‘ میں منور مرزا ’’کوالالمپور کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت‘‘ سے متعلق تجزیہ لائے۔ کمال ہے، عمران خان خود یا اُن کا کوئی ’’ماجا گاجا‘‘ اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوا؟ شاید پاکستانی قیادت کو ابھی بھی ہزار مرتبہ کے آزمائے ’’سعودی عرب‘‘ سےکچھ امیدیں ہیں، ’’سرچشمۂہدایت‘‘ کے مفید سلسلے’’غزوات و سرایا‘‘ کی ساتویں قسط لاجواب تھی۔ ’’خانوادے‘‘ میں ’’قراۃ العین حیدر‘‘ کی تحقیق پر ڈاکٹر قمر کا نام پڑھ کر منہ سے ’’یااللہ خیر!‘‘ نکلا اور وہی ہوا، جس کا ڈر تھا، ڈاکٹر نے عینی آپا کے مضمون میں اُن کے والد اور دیگر افراد کا زیادہ تذکرہ کیا (کیوں کہ خاندان اُجاگرکرناتھا) مناسب ہوتا، قراۃ العین حیدر کو ایک ہی صفحے پر شایع کردیا جاتا۔ عالیہ کاشف نے میشا علی کی ماڈلنگ والے پیراہنوں کا احوال لکھا، اچھا لکھا۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل نے قاضی حسین احمد کی یادوں کے چراغ جلا دیئے، تحریر کی ایک ایک سطرقابلِ مطالعہ تھی۔ محمّد ہمایوں ظفر ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں اچھی کہانیاں پڑھوارہے ہیں۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں پروفیسر منصور کو سیٹ مل ہی گئی، ممکن ہوتو اعزازی چِٹھی کے مراسلہ نگار کی فوٹو بھی شایع کیا کرو۔ اور لڑکی میں تمہیں کتنی مرتبہ سمجھائوں کہ محکمۂ ڈاک پر مجھےٹکےکااعتبار نہیں، پوسٹ مین کم بختا ’’پوست مین‘‘ زیادہ ہے۔ سردیوں میں اور زیادہ اُونگھتا اور باقاعدہ سوتا ہے۔ ایسے تاریک حالات میں اگر دو تین ڈاک خانوں سےتبصرہ پوسٹ کرتا ہوں۔ تو ’’غُل خانی‘‘ کیوں بن جاتی ہو۔ (پروفسر ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی ،گلبرگ ٹائون، کراچی)

ج:بزرگوار! مسئلہ یہ ہےکہ ہماری زندگی میں آپ کے خطوط کے پلندے سنبھالنے کے علاوہ بھی بہت سے مسائل ہیں اور آپ جتنی فراغت تو شاید ہمیں مر کے بھی نصیب نہ ہو کہ ایک ہی تحریر چار چار بار بذریعہ ڈاک ملے، پھر چار بار ای میل کے ذریعے بھی آئے، اور ہم اِسی کی جانچ پڑتال میں لگے رہیں، کون سی نئی ہے اور کون سی پُرانی، ابھی تو ہم نے محض تنبیہ کی ہے، آپ اپنی روش سے باز نہ آئے، تو آئندہ یہ الف لیلوی داستانیں، منہ بند لفافوں سمیت ڈسٹ بن کی نذر کردی جائیں گی۔

بہت مہربان ہیں ؟

کیا وجہ ہے کہ آپ پروفیسر سیّد منصور علی خان پر بہت مہربان ہیں، کیا اس لیے کہ وہ آپ کو ’’بٹیا‘‘ کہہ کر بلاتے ہیں۔ خیر، زیرِنظر شمارہ کافی بہتر تھا، حالاں کہ صفحات کی تعداد خاصی کم ہو گئی ہے۔ ناقابلِ فراموش‘‘ میں عفّت زرّیں، ملیر کراچی کی کہانی بے حد پسند آئی۔ (اسلم قریشی، ملیر،کراچی)

ج: عفّت زرّیں کی کہانی آپ کو اس لیے پسند آئی کہ وہ بھی آپ کی طرح ملیر، کراچی سے ہیں؟ پروفیسر صاحب کے جو خطوط ’’اعزازی چِٹھی‘‘ بننے کے لائق ہوتے ہیں، وہی بنتے ہیں، وگرنہ بٹیا تو ہمیں پروفیسر مجیب ظفر بھی لکھتے ہیں، چاچا چھکّن بھی، نیز اور بھی کئی ہیں(اور سب سے بڑھ کر ہمارے عزیز از جان والد صاحب کو اللہ پاک صحت و زندگی دے۔ اُن کے ہوتے ہمیں کسی سے بھی بٹیا کہلوانے کا کوئی ارمان نہیں) تو قصّہ مختصر، ہمارے یہاں بولنے سے پہلے تولنے کا تو کوئی رواج ہی نہیں، کم از کم لکھنے سے پہلے ہی کچھ سوچ لیا کریں۔

ڈائری میں نوٹ کرتی ہوں

نرجس آپی ! آج پہلی بار آپ کی بزم میں شرکت کر رہی ہوں۔ سنڈے میگزین کی تو بےحد شیدائی ہوں کہ اِس کے بغیر اتوار بے رنگ ہے۔ صفحات کی کمی کے باوجود میگزین پرفیکٹ ہے۔ عبداللہ ناول تو ہر دل عزیز بن چُکا ہے۔ ویسے میں آپ کے شعری ذوق اور طرزِ تحریر سے بھی بے حد متاثر ہوں، آپ کے منتخب کردہ اشعار، غزلیں اپنی ڈائری میں نوٹ کرتی رہتی ہوں۔ اور ایک درخواست ہے آپ سے پلیز، ہمایوں سعید، عائزہ خان، حرا مانی کا انٹرویو بھی کروائیں۔(عیشاءرانا،شاہی روڈ، فیض کالونی، صادق آباد)

ج:جی عیشا.....ذرا ’’دو ٹکے کی عورت‘‘ کی دھول بیٹھ جائے، ڈرامے کی کاسٹ کے دماغ آسمان سے نیچے آجائیں۔ تینوں کے نام ہماری لسٹ میں شامل ہیں۔

ممکن ہے، ازالہ ہوجائے

تازہ ترین شمارہ ہاتھوں میں ہے۔ سرِورق بہت خُوب صُورت ہے۔ ماڈل میشا علی کا چہرہ بڑا معصوم ہے۔ ملائیشیا کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت ٹاک آف دی ٹاؤن رہی، تو اِسی تناظر میں منور مرزا کا مضمون ’’پاکستان کی عدم شرکت سے کیا پیغام گیا؟‘‘ بہت ہی اثر انگیز تھا، ’’غزوات و سرایا‘‘ بہترین معلوماتی سلسلہ ہے۔ قراۃ العین حیدر کے بارے میں ڈاکٹر قمر عباس کا مضمون معلومات سے پُر تھا۔ مِرگی کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کا مضمون قابلِ توجّہ رہا۔ اس بار ناول کی قسط زیادہ دل چسپ نہیں تھی۔ ہوسکتا ہے، آئندہ اقساط میں ازالہ ہوجائے۔ سمیحہ راحیل قاضی نے آغا جان کی یادداشتیں بہت ہی عرق ریزی سے مرتّب کیں۔ (ظہیر الدّین غوری، سرگودھا)

ایک سچّا واقعہ

میگزین زیرِ مطالعہ ہے۔ فاروق اعظم نے وزیر مینشن کے متعلق مفید معلومات دیں، ’’غزوات و سرایا ‘‘ کی چھٹی قسط پڑھی، خُوب سلسلہ ہے۔ حسبِ سابق میرے پسندیدہ منور مرزا عالمی افق پر نظر کرتے نظر آئے۔ ہیلتھ اور فٹنیس کے دونوں مضامین نے آگاہی دی۔ ناول عبد اللہ خُوب سے خوب تر کی طرف گام زن ہے۔ ڈائجسٹ میں ’’طمانچہ ‘‘ سبق آموز افسانہ تھا۔ کراچی کی گندگی پر لکھا نگہت شفیع کا مضمون بھی حقیقت کا آئینہ دار تھا۔ آپ کا صفحہ کے خطوط اور جوابات پُرلطف رہے۔ میرے پاس ایک سچّا واقعہ ہے۔ اگر کہیں گی تو ارسال کردیا جائے گا۔ ہاں تحریر تھوڑی طویل ہوگی۔ (حامدعلی خان، ملیر،کراچی)

ج:واقعات عموماً طویل ہی ہوتے ہیں۔ انہیں کاٹ چھانٹ کر جامع، مختصر کر لیا جاتا ہے، ناقابلِ فراموش کے لیے سلیکشن کا معیار کہانی، قصّے کا دل چسپ اور حقیقی ہونا ہے۔ آپ تحریر بھیج دیں۔

2019 کا بہترین خط

2019ء کے تمام ’’آپ کے صفحات ‘‘ پڑھنے کے بعد یہ خط تحریر کررہا ہوں۔ ہر خط (بشمول گوشہ برقی خطوط) پوری دیانت اور انصاف سے چار مرتبہ پڑھ کر فیصلہ کرتا ہوں کہ کون سا خط بہترین خط ہے۔ اب میں فیصلے کا اعلان کر سکتا ہوں کہ سال2019ء میں شایع ہونے والے خطوط میں سے بہترین خط کون ساتھا۔ تو یہ دس سطور کا خط ہے۔26 مئی2019ء کے شمارے میں شایع ہوا۔ لکھنے والے کا نام سیّد ناصر شیرازی ہے۔ یہ خط مَیں نے درجنوں بار پڑھا۔ ہر بار داد دی۔ اگر تو واقعی یہ دس سطروں پر مشتمل خط تھا، تو مجھے کہنے دیجیے کہ سیّد ناصر شیرازی کُہنہ مشق ادیب، صحافی ہیں، جنہوں نے اتنی روانی، اختصار اور سادگی سے مکمل غیر جانب دارانہ رائے تحریر کی اور اگر یہ دس صفحات کا پلندہ تھا، جسے آپ نے صرف دس سطروں کا اتنا مختصر اور جامع خط بنایا، تو پھر مَیں آپ کو بہترین ایڈیٹر کہنے پر مجبور ہوں۔ (فیصل صدیقی،جوہر موڑ،کراچی)

ج:نہ یہ خط 10سطری تھا، نہ 10صفحاتی، ہاں کوئی25،30سطروں پر ضرور مشتمل ہوگا، اب آپ اُنہیں اچھا ادیب سمجھ لیں یا ہمیں اچھا ایڈیٹر، یہ آپ کی صوابدید پر ہے۔

’’حرفِ آغاز‘‘ کا ایک صفحہ

ایک ہمارا ’’سنڈے میگزین‘‘ (اتوار کا سورج) اور پھر ایک ’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ (سَن آف دی ایئر )… لال بجھکڑ کی طرح اگر ہم کنویں سے نکالنے اور درخت سے کسی کو اتارنے کے لیے ایک ہی ترکیب استعمال کریں، تو نتیجہ آَڑا آَڑا… دھم ہی ہوگا۔ خیر، مدیرہ کے اداریئے (حرفِ آغاز) کا پوسٹ مارٹم حاضر ہے۔ اگر ہم اپنی کم علمی (مثلِ چراغ) کی روشنی ڈالیں، تو سالنامے کے اوراق کی پھڑپھڑاہٹ ہی سے ہمارا چراغ گُل ہوجائے۔ شاید ایسے ہی کسی موقعے پر سورج کو چراغ دکھانے کا محاورہ وجود میں آیاہوگا۔ اس دَورِخودفراموشی میں ہمیں کل کی بات یاد نہیں رہتی، چہ جائیکہ 365؍دن کا ایک سال۔ ’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ دراصل یادِماضی کی ایک کتاب ہے، اور اس کی مختصر تعریف کے لیے اِس کاعنوان ’’یادداشتِ سال گزشتہ‘‘ نہایت مناسب ہے۔ دیدہ زیب سرِورق کے فوراً بعد اداریہ، مدیرہ کا ’’حرفِ آغاز‘‘ سالِ گزشتہ کی ایک مکمل دستاویز ٹھہرا۔ ’’درد اتنے ہیں خلاصے میں نہیں آئیں گے…‘‘ حالاں کہ یہ خلاصہ ہی ایک جامع اورمکمل تبصرہ ہے۔ خیر، ایک تجویز ہے ’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ کو پہلے کی طرح لحیم شحیم، ضخیم بنانے اور افادیت برقرار رکھنے کے لیے اس کی مکمل قسطوں کے سارے میگزین یک جا کرلیے جائیں تاکہ پچھلا سبق بُھلایا نہ جائے اور اِس سے بھی آسان طریقہ یہ ہے کہ صرف ’’حرفِ آغاز‘‘ کا ایک صفحہ اپنے ریکارڈ میں محفوظ کرلیاجائے، تو ایک بِیتا کل ایک چھوٹی سی دستاویز کی شکل میں آپ کے دسترس میں ہوگا۔ مُلکی و صوبائی، بین الاقوامی، مذہبی، سیاسی، عدالتی و حکومتی حال احوال، افواجِ پاکستان کے کارناموں، ڈراموں، ایوانِ نمائندگان کی چپقلش، ’’تخت اور تختے‘‘کےساتھ تصویری کہانیوں، معیشت کی جمع تفریق، وجودِ زن کی داستان، ادبی کاوشوں کا احوال، اس دارفانی سے کوچ کر جانے والوں کی یادوں اور اپنے پیاروں کے نام پیغامات جیسے نہ ختم ہونے والے موضوعات پر سیرحاصل تبصرے کےلیےایک صفحہ توقطعاً ناکافی ہے۔ بہرحال، میں مدیرہ کے ’’حرفِ آغاز‘‘ کو سال کی بہترین چِٹھی کاحق دارقراردیتاہوں اور قارئین کے لیے بھی ایک خصوصی مشورہ ہے کہ وہ راجا صاحب کےنقشِ قدم پرچلتےہوئے ٹودی پوائنٹ تبصرہ کرکے اعزازی کرسی کے حق دار بن سکتے ہیں۔(مانی بھائی، اورنگی ٹاؤن، کراچی)

ج: خیر تو ہے…؟ مانی بھائی میں کسی اور کی روح تو نہیں سما گئی۔ آپ تو ضرورت سے بھی کچھ زیادہ ہی سُدھر گئے ہیں۔

اختتام کی طرف گام زن

سال کےآخری شمارے کےسرِورق پر بھولی بھالی ماڈل سادگی کا پیکر لگی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا ’’سلسلۂ غزوات و سرایا‘‘ بہترین ہے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر عبدالتوحید خان مرگی کے مرض کی بابت تفصیلاً بتارہے تھے۔ ’’خانوادے‘‘میں ڈاکٹر قمر عباس نے اردو کی مایہ ناز ادیبہ قراۃ العین حیدر کے خاندان کا تعارف اچھے پیرائے میں کروایا۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے آغا جی کی یادیں تازہ کرکے دل خوش کردیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں مصباح طیّب بچّوں کی پہلی درس گاہ، ماں کے فرائض سے آگاہ کررہی تھیں۔ ’’عبداللہ‘‘ کی بہار گویا اب اختتام کی طرف گام زن ہے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کی دونوں کہانیاں سبق آموز رہیں اور ’’ہمارا صفحہ‘‘ کی اعزازی چِٹھی کے حق دار پروفیسر سیّد منصور علی خان ٹھہرے۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)

                                                                                     فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

؎آدمی مسافر ہے آتا ہے جاتا ہے..... آتے جاتے رستے میں یادیں چھوڑ جاتا ہے۔ اِسی طرح روزو شب ڈھلتے ڈھلتے اور ماہ و رُت بدلتے بدلتے آخر سال بیت جاتا ہے۔ سال 2019ء کے ماہِ آخر کا آخری شمارہ دستِ شیدا میں آیا، تو ماتھے پہ سجی بِندیا نےخاص نمبر کے انتظار کو دو آتشہ کردیا۔ دل مضطرب سے ڈنڈی مارتے (انتظار کی پگڈنڈی پر کلّا چھوڑ کر) ہم منور مرزا کے کلے کورٹ (عالمی افق) میں جوں ہی اُترے تو اِک زوردارسروس بال(مانندِسوال)آیا ’’کوالالمپور کانفرنس:عدم شرکت سے کیا پیغام گیا؟‘‘ لائی بے قدراں نَل یاری، تے ٹُٹ گئی تڑک کرکے… جواباًکہتے، کندھے جھٹکتے آگے بڑھ گئے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ (سلسلۂ غزوات و سرایا) میں اہلِ مدینہ کے عظیم عسکری کارناموں کا تذکرۂ ایمان افروز سات ہفتوں سے جاری ہے۔ ڈاکٹر قمر عباس نے ادبِ نسواں کی سُرخیل، قراۃ العین حیدرکےخانوادےکا دل کش پیرائے میں سیرحاصل خاکہ پیشِ خدمت کیا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں حوصلہ افزا و تَن خُوش خبری دی گئی ’’مرگی کی تمام اقسام قابلِ علاج ہیں‘‘ ڈاکٹر صاحب سے گزارش ہے کہ ہمارے معاشی سقراطوں کو بھی مینٹل ہیلتھ کے لیےکوئی گھول گھوٹالہ مرونڈا (لڈّو) ہی کِھلا دیں کہ بسترِ مرگ پر پڑی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکے۔ اب تو سوہنے یار کے ووٹرز بھی سر تے بانہہ رکھے ہوئے ہیں کہ اے’’تبدیلی‘‘سانوں مارگئی۔ مرکزی صفحات(اسٹائل) طبقۂ خوش پوش وخوش رُو کے لیے بہر صورت شارعِ عام ہے اور صنفِ مخالف واسطے بہرحال نو اینٹری! (اور یہی رازِخیر اور کلیدِ عافیت ہے) اللہ اللہ کرتے ’’ناقابلِ فراموش‘‘ تک پہنچے، تومحمّد ہمایوں ظفر مخاطب تھے۔ اوہو! واہ جی وا! ویل ڈن ہاشم بھا! سلور جوبلی آف عبداللہ، ٹھاہ ٹھاہ! لیکن عبداللہ 25؍ویں قسط میں کچھ اُداس اُداس و پریشاں دل تھا۔ ’’پیارا گھر‘‘ کے چینل سے مصباح طیّب کی پندِ انسان گری خُوب رہی، تو عفّت زرّیں کی رُودادِ اللہ توکلی بھی اقوالِ زرّیں سے کم نہ تھی۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں 10؍خطوطِ عمومی میں سے ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں، پورے چار خطوط فیضِ جواب سےبےبہرہ رہے۔ (یہ چُپ کا تازیانہ کچھ زیادہ نہیں برس گیا؟) ہاہاہا…! (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

ج:آپ پلیز! تھوڑا مختصر لکھنے کی کوشش کیا کریں کہ ہمیں آپ کی تحریر ایڈٹ کرنا بالکل اچھا نہیں لگتا۔

گوشہ برقی خُطوط

  • مَیں ’’نئی کتابیں‘‘ میں تبصرے کے لیے اپنی ایک کتاب بھیجنا چاہتی ہوں۔ اُس کے لیے مجھے کتنی جِلدیں اور کس پتے پر بھیجنی ہوں گی۔ (جویریہ خان)

ج: سب سے پہلے تو کتاب کا نیا ہونالازم ہے۔ زیادہ سے زیادہ 2019ء میں شایع ہوئی ہو۔ دوم، آپ دو جِلدیں بھیجیں گی۔ اور ’’ایڈیٹر، سنڈے میگزین‘‘ کے نام بھیجی جائیں گی۔ مکمل پتا اِسی صفحے کے آخر میں درج ہے۔ تبصرہ باری آنے پر شایع ہوگا، جس میں تین سے چار ماہ بھی لگ سکتے ہیں۔

  • مَیں آپ کو کتنی ای میلز کرچکی ہوں۔ آپ شایع کرتی ہیں اور نہ ہی جواب دیتی ہیں۔ (شاہدہ ناصر، گلشنِ اقبال، کراچی)

ج: ہمارے خیال میں تو اس سے قبل بھی آپ کے خط اور ای میلز شایع ہوچُکی ہیں۔

  • مَیں نے آپ کو ایک تحریر ’’احسان کا بدلہ احسان‘‘ کے عنوان سے بھیجی تھی۔ نہ تو شایع ہوئی اور نہ آپ نے بتایا کہ آپ کو ملی بھی ہے یا نہیں۔ میرے خیال میں مضمون نگار کو اتنا تو ضرور بتانا چاہیے کہ اُس کی تحریر ’’قابلِ اشاعت‘‘ ہے یا نہیں، تاکہ وہ کم از کم آئندہ کے لیے تو کوئی لائحہ عمل اختیار کرسکے۔ (ڈاکٹر سیّدہ ارفع اختر رضوی)

ج: ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ وہ واحد جریدہ ہے، جو ناقابلِ اشاعت تحریروں کی بھی فہرست شایع کرتا ہے، جس کا رسائل و جرائد کی دنیا میں کوئی تصّور ہی نہیں۔ اس کے باوجود بھی اگر لوگ شکوہ کناں رہیں، تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ بہرحال، آپ کی کوئی تحریر ہمارے ریکارڈ میں محفوظ نہیں۔

  • سنڈے میگزین یہاں پردیس میں ایک نعمت سے کم معلوم نہیں ہوتا۔ اِسے باقاعدگی سے پڑھنا گویا ہمارے معمولات میں شامل ہے۔ سرچشمۂ ہدایت اور ناول کے صفحات تو بہت ہی شوق و دل چسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ (قرأت نقوی، ٹیکساس، یو ایس اے)
  • میگزین دن بدن بہتر سے بہترین ہورہا ہے۔ آپ کا انٹرویو پڑھنے کی خواہش بڑھتی جارہی ہے۔ (افشاں الیاس راجپوت، مرغزار کالونی، لاہور)

ج:آپ اس میگزین کے مندرجات کو ہمارا انٹرویو ہی سمجھیں۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

تازہ ترین