کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان ابصاء کومل کے پہلے سوال وزیراعظم اتحادیوں پر اعتماد کریں اور فسادیوں سے دور رہیں، چوہدری شجاعت، رہنما ق لیگ کا اشارہ کن کی جانب ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ چوہدری شجاعت اگر فسادیوں کے نام بھی بتا دیتے تو اچھا ہو تا، ق لیگ اور تحریک انصاف میں 80فیصد معاملات طے پاگئے ہیں،ق لیگ اور تحریک انصاف کے مذاکرات آگے نہیں بڑھے ہیں۔ ارشاد بھٹی نے کہا کہ ق لیگ اور تحریک انصاف میں 80فیصد معاملات طے ہوگئے ہیں، چوہدری شجاعت وزیراعظم کوفسادیوں سے دوررہنے کا مشورہ دیتے ہوئے اگر فسادیوں کے نام بھی بتادیتے تو اچھا ہوتا، چوہدری شجاعت وزیراعظم کے قریب جن لوگوں کی بات کررہے ہیں ان میں کچھ لوگوں کا مجھے پتا ہے لیکن جب انہوں نے نہیں بتایا تو میں کیوں بتاؤں۔ حفیظ اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ ق لیگ اور تحریک انصاف کے مذاکرات آگے نہیں بڑھے ہیں، حکومت کی طرف سے ق لیگ کے مطالبات پرکوئی پیشرفت نہیں ہوئی ، چوہدری شجاعت نے منطقی بات کی ہے کہ وزیراعظم اپنی صفوں میں ان لوگوں کو تلاش کریں جو انہیں اکسارہے ہیں، جرگہ میں انٹرویو سے چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ وزیراعظم کی تکرار اور تلخی ہوچکی ہے، میری معلومات کے مطابق تو بات بدتمیزی کی حد تک پہنچ چکی ہے، عمران خان بعد میں معافی مانگتے رہے مگر انہیں ٹکا سا جواب مل گیا، چوہدری شجاعت نے واضح کردیا ہے کہ ق لیگ کے مطالبات پورے نہیں ہوئے تو مذاکرات نہیں ہوں گے۔محمل سرفراز نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اندر کچھ لوگ ق لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان فاصلے بڑھارہے ہیں، ق لیگ کے ن لیگ سے بھی رابطے بحال ہوگئے ہیں، ق لیگ کہتی ہے کہ وہ تبدیلی نہیں لانا چاہتی لیکن میں سمجھتی ہوں انہیں اشارہ مل گیا تو تبدیلی لے آئیں گے، مونس الٰہی بہت قابل شخص ہیں سمجھ نہیں آتا انہیں وزارت کیوں نہیں دی جارہی، پی ٹی آئی حکومت اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے کے بجائے انہیں تنگ کررہی ہے، عمران خان چوہدری برادران کو ساتھ لے کر چلیں تو ان کیلئے اچھا ہوگا۔مظہر عباس کا کہنا تھا کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کا جہانگیر ترین مخالف گروپ نہیں چاہتا کہ چوہدری برادران کے مطالبات مانے جائیں، چوہدری شجاعت وزیراعظم کو جن فسادیوں سے دور رہنے کا کہہ رہے ہیں وہ غالباًیہی جہانگیر ترین مخالف گروپ ہے، ق لیگ کو کچھ مل گیا تو قومی مفاد میں اتحاد میں رہے گی کچھ نہیں ملا تو قومی مفاد میں الگ ہوجائے گی، عمران خان کو مسئلہ ہے کہ پنجاب میں وہ جہانگیر ترین یا شاہ محمود قریشی کس کے ساتھ بیٹھیں۔بابر ستار نے کہا کہ اگر آج سب کو پتا ہے کہ ریاست حکومت کے پیچھے کھڑی ہے تو اتحاد اسی طرح چلتے رہنا تھا، حکومت نے ق لیگ سے اچھی طرح بات نہیں کی اس پر حکومت نہیں ٹوٹے گی نہ ق لیگ علیحدہ ہوگی۔دوسرے سوال بچوں سے زیادتی کے مجرم کی سرعام پھانسی کی قرارداد منظور، فواد چوہدری کی بھرپور مذمت، کیا قرارداد درست ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ تحریک انصاف تضادات کا مجموعہ ہے، ایک جج نے سرعام پھانسی کا فیصلہ لکھا تو اسے یہ حکومت سپریم جوڈیشل کونسل میں لے جارہی تھی دوسری طرف بچوں سے زیادتی کے مجرم کی سرعام پھانسی کی قراردادمنظور کررہی ہے، حکومت پہلے وہ سرعام پھانسی تو دیدے جس کا عدالتی حکم آچکا ہے۔بابر ستار کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے اندر لوگ ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں تو اچھی بات ہے، پاپولرازم کا زمانہ ہے اسی لئے بچوں سے زیادتی کے مجرم کی سرعام پھانسی کی قراردادمنظور کی گئی ہے، پی ٹی آئی کے اندر سمجھدار لوگ سمجھارہے ہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، یہ بات یقینی نہیں کہ مجرموں کو سرعام پھانسی دی جائے گی تو جرم ختم ہوجائے گا۔محمل سرفراز نے کہا کہ بچوں سے زیادتی کے مجرم کی سرعام پھانسی کی قرارداد درست نہیں ہے، فواد چوہدری اور شیریں مزاری اس قرارداد کی مخالفت اسی لیے کررہے ہیں کہ سخت سزاؤں سے جرائم ختم نہیں ہوتے ہیں، جرائم اسی وقت ختم ہوسکتے ہیں جب ایسا میکنزم موجود ہو جس میں جرم ہونے ہی نہ دیا جائے، اس طرح کی قراردادوں سے لوگوں کو تشدد پر اکسایا جارہا ہے۔مظہر عباس کا کہنا تھا کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں لوگوں کو سرعام کوڑے مارے جاتے اور سرعام پھانسی دی جاتی تھی لیکن اس کا لوگوں پر کوئی اثر نظرنہیں آتا تھا، لوگ سرعام کوڑے یا سرعام پھانسی کو ایک تماشے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے، علی محمد خان بچوں سے زیادتی کے مجرموں کو سزا دلوانے میں مخلص ہوتے تو قانون سازی کی طرف جاتے، اس طرح قراردادیں پیش کرنا صرف خود کو اجاگر کرنے والی بات ہوتی ہے،جنسی مسئلہ ایک مرض ہے ہم مرض کی بجائے مریض کو ختم کرنے کی بات کررہے ہیں۔ ارشاد بھٹی نے کہا کہ بچوں سے زیادتی کے مجرموں کو سرعام پھانسی دینی چاہئے، جن بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات ہوتے ہیں ان کا پورا خاندان ذہنی مریض بن کر رہ جاتا ہے، کیا بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے انسان کہلانے کے لائق ہیں، کیا ایسے لوگوں کے انسانی حقوق ہیں اور وہ مہذب معاشرے کا حصہ بن سکتے ہیں۔