اسلام آباد (انصار عباسی) ایک مرتبہ تیار ہو جائے، پشاور بی آر ٹی بس پر اپنی ذمہ داری پر سواری کیجیے گا کیونکہ سرکاری رپورٹ میں 66؍ ارب روپے مالیت کے اس پروجیکٹ کے ڈیزائن میں سنگین خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور ساتھ ہی خبردار کیا گیا ہے کہ آمنے سامنے ٹکرائو، بس سروس میں خلل، سیلاب اور دیگر مسائل کا خطرہ بھی موجود ہے۔
مختلف اسٹیشنوں پر بزرگ شہریوں (سینئر سٹیزنز) اور معذور افراد کیلئے رسائی کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ سہولتیں نہیں ہیں۔
بس اسٹیشنوں پر اس قدر چکنی ٹائل کا استعمال کیا گیا ہے مسافروں کے پھسلنے کا خطرہ ہے لہٰذا اسے بزرگ افراد اور بچوں کیلئے خطرناک کہا جا سکتا ہے؛ بس اسٹیشنوں کا ڈیزائن بناتے وقت سڑک عبور کرنے، سڑکوں کے اوپر پُل (اوور ہیڈ برج) بنانے، یو ٹرن اور پارکنگ جیسی سہولتوں کا خیال نہیں رکھا گیا۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بس اسٹیشنوں کے ڈیزائن غیر معیاری ہیں، اندھے موڑ بنائے گئے ہیں جن کی وجہ سے بسوں میں آمنے سامنے ٹکرائو کا خطرہ ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کے نمائندوں نے بھی بی آر ٹی راہداری کے مختلف مقامات پر اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ رفتار برقرار رکھتے ہوئے دو بسوں کیلئے موڑ کی جگہ پر نقل و حرکت ناممکن ہوگی۔ موڑ کیلئے نقائص والے ان مقامات کی وجہ سے گاڑیوں میں ٹکر ہو سکتی ہے جس سے بی آر ٹی سسٹم کی آپریشنل صلاحیت متاثر ہوگی۔
رپورٹ کے مطابق، اے ڈی بی نمائندوں کا کہنا ہے کہ بس اسٹیشنوں پر سیڑھی کی اونچائی زیادہ اور قدم رکھنے کیلئے چوڑائی میں ہم آہنگی نہیں، یہ صورتحال حفاظتی معاملے میں انتہائی خطرناک ہے۔
مزید برآں، پروجیکٹ میں استعمال کیا جانے والا نرم فولاد (مائلڈ اسٹیل) اور صنعتی فلورنگ بھی قابل قبول نہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مختلف اسٹیشنوں پر سینئر سٹیزنز اور معذور افراد کیلئے آسان رسائی کی گنجائش نہیں رکھی گئی۔
اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ دنیا بھر میں پیش کی جانے والی سہولتیں جیسا کہ ایلیویٹرز، ریمپ اور سیڑھیاں نامعلوم وجوہات کی بنا پر بی آر ٹی اسٹیشنوں پر فراہم نہیں کی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق، اے ڈی بی کے نمائندوں نے بتایا کہ سڑک پر بس پر سواری کیلئے بنائی جانے والی منڈیر یا حاشیہ (Kassel Kerb) محفوظ اور آسانی سے سوار ہونے کیلئے ضروری ہے اور اس مقصد کیلئے فٹ پاتھ اور بس کے پلیٹ فارم کے درمیان خلا اور سطح متوازن اور کم ہونا چاہئے۔
اے ڈی بی مشن کے مطابق، بی آر ٹی اسٹیشن کے تمام کیسل کرب غیر معیاری ہیں لہٰذا ان کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ڈیزائن میں ایک اور سنگین خامی یہ ہے کہ سڑک عبور کرنے، سڑکوں کے اوپر پُل (اوور ہیڈ برج) بنانے، یو ٹرن اور پارکنگ جیسی سہولتیں فراہم نہیں کی گئیں۔ اس کا نتیجہ بی آر ٹی سروس میں خلل کے طور پر سامنے آئے گا اور پیدل چلنے والے افراد اور یوٹرن لینے والوں کیلئے مسائل پیدا ہوں گے۔
رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ پانی کی نکاسی کے ناقص انتظام کی وجہ سے ہی بارشوں کے موسم میں یونیورسٹی روڈ زیر آب اگئی تھی۔
بی آر ٓٹی کوریڈور کے تمام بالائی اسٹیشنوں پر نا مکمل / غیر موجود ڈرینیج سسٹم کی نشاندہی کی گئی تھی۔ پروجیکٹ امپلی مینٹیشن یونٹ کے علاوہ، اے ڈی بی نے اس بات کا ذکر بھی کیا تھا کہ بی آر ٹی اسٹیشنوں پر بارش کا پانی جمع کرنے کیلئے بھی کوئی چینل فراہم نہیں کیا گیا۔
مزید برآں، اسٹیشن کی چھتیں بھی ہموار نہیں ہیں جس سے یہ دیکھنے میں بھی بھدے لگتے ہیں اور ان میں بارش کا پانی جمع کرنے کا بھی انتظام نہیں۔ رپورٹ کے مطابق، اے ڈی بی کے نمائندوں نے بس اسٹیشنوں کے ڈیزائن کو بھی خراب قرار دیا تھا۔
اسٹیشن کے ڈیزائن میں شیشے کا حد سے زیادہ استعمال اندرونی ماحول میں گرمی پیدا کرے گا جس سے اسٹیشنوں میں اندر کا درجہ حرارت انتہائی حد تک بڑھ جائے گا۔
اصل میں بس اسٹیشنوں پر ایسی ٹائلیں لگانے کی بات کی گئی تھی جو چکنی ہوں اور نہ ہی چمکدار لیکن بس ا سٹیشنوں پر سستی اور چکنی پورسلین ٹائلیں لگائی گئی ہیں۔
ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی پیشرفت جائزہ رپورٹ (پروگریس ریویو) میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ یہ چکنی اور چمکدار ٹائلیں بزرگ افراد اور بچوں اور ساتھ ہی معذور افراد کیلئے محفوظ نہیں۔
آڈٹ رپورٹ میں پروجیکٹ کے معیار کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ بس اسٹیشن پر اور بی آر ٹی کوریڈور پر سائے کیلئے سستا مواد استعمال کیا گیا ہے، گارڈ ریل / کوریڈور کی اطراف میں نصب جنگلے کا معیار اور ڈیزائن خراب ہے۔
اے ڈی بی کی ٹیم نے پی آئی یو / پی ایم سی ایس سی کو احکامات دیے تھے کہ کوریڈور کے باقی حصوں پر ایسی باڑ لگائی جائے جسے کوئی عبور کر سکے اور نہ ہی اسے کاٹا جا سکے کیونکہ جو باڑ لگائی گئی ہے اسے آسانی سے توڑ پھوڑ کا شکار کیا جا سکتا ہے۔
رپورٹ میں غیر معیاری روشن دان بنائے جانے کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ڈبگری اسٹیجنگ کے مقام پر بنائے گئے کالم کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے جس سے پورا اسٹرکچر ناکام ہو سکتا ہے۔
چند روز قبل دی نیوز میں بی آر ٹی پشاور کی آڈٹ رپورٹ شائع کی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ اربوں روپے مالیت کی بے ضابطہ ادائیگیاں کی گئیں، نقصانات کیے گئے، غیر مجاز تبدیلیاں کی گئیں اور پیسہ ضایع کیا گیا۔
رپورٹ میں نشاندہی کی گئی تھی کہ پروجیکٹ کی منصوبہ بندی میں نقائص تھے اور تعمیراتی کام تفصیلی انجینئرنگ ڈیزائن کے بغیر ہی شروع کر دیا گیا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے وقت پر ان خدشات کا ذکر کر دیا تھا کہ 2018ء کے عام انتخابات کی وجہ سے اس پروجیکٹ کی تکمیل کیلئے سیاسی دبائو پروجیکٹ کے ڈیزائن اور اس پر عملدرآمد پر منفی اثرات مرتب کرے گا۔
ایشیائی ترقیاتی بینک یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ تفصیلی انجینئرنگ ڈیزائن (ڈی ای ڈی) ابتدائی ڈیزائن کی بنیاد پر تیار کیا جائے۔
لیکن اس کے باوجود صوبائی حکومت نے ایسے انتباہ پر دھیان نہ دیا اور ثابت کیا کہ اس کا منصوبہ بندی کا عمل اس قدر کھوکھلا تھا کہ حکام تکمیل کیلئے موزوں اور قابل قبول وقت کا تعین بھی نہ کر سکے۔