• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

’بدعنوان افسران کےخلاف ایکشن‘ دو ڈی ایس پی سمیت متعدد اہل کار معطل

پولیس کے محکمے میں قانون کےرکھوالے امن و امان کے قیام اور جرائم کی بیخ کنی کے لیےاپنی جانوں تک کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتے ۔ لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ محکمے میں موجود بعض کالی بھیڑوں کی وجہ سےاس پر اکثرو بیشتر انگشت نمائی ہوتی رہتی ہے۔ بعض اوقات اس محکمے کے نچلی سطح کے اہلکاروں کے علاوہ اعلیٰ افسران کے بھی ایسے قصے سامنے آتے ہیں کہ لکھتے ہوئے قلم کانپ جاتاہے۔ 

یہ بھی دیکھاگیا ہے کہ اگر کوئی پولیس اہلکار کسی جرم میں رنگے ہاتھوں پکڑا بھی جاتا ہے تو اس کے پیٹی بندبھائی اس کو بچانے کے لئے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرکے اس کی گلو خلاصی کرادیتے ہیں۔ محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت اس حد تک موجود ہے کہ حکمراں پارٹی کے ضلعی سطح کے عہدے دار ،ایس ایس پی اور ڈ ی ایس پی کے علاوہ ڈی آئی جی کی تقرری اور تبادلے اور اپنے منظور نظر افسران کی پوسٹنگ کراکر ضلع میں اپنے اثرو رسوخ کی دھا ک بٹھا کر سیاسی مخالفین کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ ان کے منظور نظرافسران کرپشن اور اپنی نااہلی سے عوام کا جینا دوبھر کردیتے ہیں۔ 

یوںتو سپاہی کی سطح پر چھوٹی موٹی رشوت ستانی عام سی بات سمجھی جاتی ہے اورکارروائی ہونے پر ان اہلکاروں کی معطلی کوئی بڑی بات نہیں ہوتی تاہم ڈی ایس پی کی سطح کے افسران جب اپنے پرائیوٹ کارندوں کے ذریعہ لوگوں کی ’’شارٹ ٹرم کڈنیپنگ‘‘کراکے ان سے بھاری رقومات وصول کرکےانہیں رہا کریں تو عوام کا قانون اور اس کے محافظوں پر سے اعتماد ختم ہوجاتا ہے۔اس کے علاوہ ریل کی پٹریوں کی چوری میں ملوث گروہ کے پکڑے جانے کے بعد انہیں چھڑوانے اور کیس کو کمزور کرنے کے لئے مذکورہ افسران کی جانب سے تگ ودوکی جائے تو بات تشویش ناک حد تک بڑھ جاتی ہے۔

ایسا ہی ایک واقعہ ضلع شہید بے نظیر آباد( نواب شاہ) میں ہواجس میںایڈیشنل آئی جی کے حکم پر دو ڈی ایس پیز کو معطل کردیا گیا۔ ایس ایس پی نواب شاہ، تنویر احمد تنیو نے نمائندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ڈی ایس پی ، سی آئی اے فداحسین چانڈیو کے بارے میں معلوم ہوا کہ انہوںنے اپنی تعیناتی کے ساتھ ہی نجی فورس قائم کر لی تھی۔ 

سادہ کپڑوںمیں ملبوس ان کی فورس کےارکان لوگوں کو پکڑکربغیر کسی قانونی کارروائی کے انہیں نجی عمارتوں میں قید رکھتے اور پھربھاری رقومات کی وصولی کے بعدانہیں اس شرط پر رہا کیا جاتا کہ وہ اپنی زبان بند رکھیں گے۔ ایس ایس پی تنویر تنیوکے مطابق ڈی ایس پی غلام محمد مخدوم پر الزام ہے کہ انہوں نے قاضی احمد میں برسوں سے بند ریلوے لوپ لائن کی پٹریوں کی چوری میںملوث گینگ کے پکڑے جانے پر اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئےمقدمہ پراثرانداز ہونے کی کوشش کی تھی۔ 

انہوں نے مقدمہ کمزور کرکے ملزمان کو فائدہ پہنچانے کے لئے اپنا اثر ورسوخ استعمال کیا۔اے آئی جی کے حکم پر دونوں ڈی ایس پیزکے خلاف تحقیقات کرائی گئی اور الزامات کی تصدیق ہونے کے بعدانہیں معطل کرکے ایڈیشنل آئی جی ڈاکٹرولی اللہ دل کے آفس میں رپورٹ کرنےکا حکم دیا گیاہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈی ایس پی ، سی آئی اے کی معطلی کے بعد فی الحال نئے ڈی ایس پی کی تقرری تک سی آئی اے آفس بند کردیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ ضلع بے نظیر آباد میں پولیس حکام کی جانب اس سے قبل بھی کئی پولیس اہل کاروں کے خلاف کارروائی کی جاچکی ہے۔گزشتہ ماہ شہدادپور روڑ سے دو موٹر سائیکل چوری کرنے والے پولیس کانسٹیبل اور قاضی احمد میں جوےکااڈہ چلانے والے پولیس اہلکار کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔پولیس ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ضلع شہید بے نظیر آبا د میں ماضی میں بھرتی ہو نے والے پولیس کے اہلکاروں میں ایسے لوگ بھی شامل تھے۔ 

جن کے خلاف مبینہ طور پر ضلع کے تھانوں میں موٹر سائیکل چھیننے اور چوری کرنے سمیت لوٹ مار کے بھی مقدمات درج کیےگئےتھے جبکہ ان کی بھرتیوں میں میڈیکل فٹنس ٹیسٹ سمیت تمام قواعد و ضوابط کو نظر انداز کردیا گیا تھا۔ پولیس اہل کار وں کی بھرتیوں کے سلسلے میں کریکٹر سرٹیفکیٹ کی شرط بھی مبینہ طور سے ختم کردی گئی تھی۔ ایس ایس پی تنویر حسین تنیو کا کہنا ہے کہ محکمہ پولیس کو کالی بھیٹروں سے پاک کرنے کا عمل جاری ہے ، اس سلسلے میں کسی بھی سیاسی اثررسوخ یا حکومتی دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا۔

تازہ ترین
تازہ ترین