• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر:قاری عبدالرشید۔۔ اولڈھم


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه‎ عنہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے۔ آپؓ آنحضرت صلی اللّٰه‎ علیہ وسلم کے بچپن کے دیرینہ دوست اور سفر و حضر کے ساتھی تھے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کا اعلان کیا ۔ تو سب سے پہلے آپؓ کو یہ شرف حاصل ہوا۔ کہ آپ ؓ نے حضور صلی اللّٰه‎ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کی۔ مردوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه‎ عنہ پہلے مسلمان ہونے کا تاریخی اعزاز بھی رکھتے ہیں۔ اولیات صدیقیؓ ان شاء اللّٰه‎ تعالیٰ پھر کسی کالم میں لکھنے کی سعادت حاصل کروں گا۔ امت مسلمہ کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ افضل البشر بعد الانبیاءبالتحقیق ۔سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ چودہ سو سال سے زائد عرصے سے علمائے اسلام اس کا اعلان کر رہے ہیں۔ اور یہ اعلان ابدالاباد تک ہوتا رہے گا۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه‎ عنہ نے رسول اللّٰه‎ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت کے بعد ہر موقع پر آپ صلی اللّٰه‎ علیہ وسلم کا ساتھ دیا اور آپ صلی اللّٰه‎ علیہ وسلم کا نہ صرف مالی تعاون کیا بلکہ ہر مشکل وقت میں آپ صلی اللّٰه‎ علیہ وسلم کے معاون و مددگار رہے۔ ہجرت کے وقت آپ صلی اللّٰه‎ علیہ وسلم کے ساتھی تھے۔ تمام غزوات میں آپؓ شریک ہوئے اور یہ حقیقت ہے کہ آپؓ رسول اللّٰه‎ صلی اللّٰه‎ علیہ وسلم کے مشیر اول تھے ۔ رسول اللّٰه‎ صلی اللّٰه‎ علیہ وسلم نے آپؓ کے بہت سے فضائل ومناقب بیان فرمائے ہیں۔ آپ صلی اللّٰه‎ علیہ وسلم نے فرمایا :ابوبکر فی الجنۃ ( ترمذی”ابوبکرؓ جنتی ہیں) اور یہ بھی فرمان نبویؐ ہے:”میری امت میں سے میری امت کے ساتھ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ابوبکرؓ ہے ۔ “ ( ترمذی قرآن مجید میں ہے : ثاني اثنين اذ ھما في الغار اذ يقول لصاحبہ لا تحزن ان اللہ معنا فانزل اللہ سکينتہ علیہ( التوبہ) دو میں سے دوسرا جب غار میں اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غمگین مت ہو بے شک خدا ہمارے ساتھ ہے۔ پھر اللّٰه‎ نے اس پر سکینہ(اطمینان) نازل فرمایا۔جمہور ائمہ کرام اور مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ صاحب سے مراد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه‎ عنہ ہیں ۔حضرت عبد اللّٰه‎ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بھی یہی قول ہے۔ ایک دفعہ رسول اللّٰه‎ صلی اللّٰه‎ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :ان من امن الناس صحبتہ ومالہ ابوبکر رضی اللّٰه‎ عنہ ”دوستی کے حق کی ادائیگی اور مال خرچ کرنے میں تمام لوگوں سے بڑھ کر احسان مجھ پر بلاشبہ ابوبکر صدیق رضی اللّٰه‎ عنہ کا ہے ۔ پھر ارشاد فرمایا : ولو کنت متخذاخلیلا غیر ربی لا تخذت ابابکر خلیلا (بخاری و مسلم )” اگر میں اپنے رب کے سوا کسی اور کو خلیل بناتا، تو ابوبکر صدیقؓ کو خلیل بناتا۔ ایک بار آپ صلی اللّٰه‎ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : انت صاحبی فی الغار وصاحبی علی الحوض ( بخاری )” تم غار میں میرے رفیق تھے اور حوض کوثر پر میرے رفیق ہوگے۔ “ جامع ترمذی میں امام ترمذی نے اور تاریخ الخلفاءمیں امام سیوطی رحمۃ اللّٰه‎ نےحضرت عمر فاروق رضی اللّٰه‎ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے، کہ ابوبکر صدیق رضی اللّٰه‎ عنہ ہم سب کے سردار اور ہم سب سے بہتر، رسول اللّٰه‎ صلی اللّٰه‎علیہ وسلم کو ہم سب سے زیادہ پیارے تھے۔ غزوہ تبوک رجب9ہجری میں پیش آیا ۔ آنحضرت صلی اللّٰه‎ علیہ وسلم نے اس غزوہ کیلئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مال پیش کرنے کا حکم دیا تو ہر صحابی نے اپنی طاقت کے مطابق اس غزوہ کیلئے مال پیش کیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : جس وقت غزوہ تبوک کیلئے آنحضرت صلی اللّٰه‎ علیہ وسلم نے مال دینے کا حکم فرمایا تو اس وقت میرے پاس بہت سارا مال تھا، میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر ابوبکر رضی اللّٰه‎ عنہ سے بڑھ سکتا ہوں تو وہ یہی موقع ہے۔ چنانچہ میں گھر گیا اور اپنا نصف مال لا کر آنحضرت صلی اللّٰه‎علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ رسول اللّٰه‎ صلی اللّٰه‎علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا ۔ عمرؓ اپنے اہل و عیال کیلئے کیا چھوڑ آئے ہو ؟ میں نے عرض کیا، اے اللّٰه‎ کے رسول صلی اللّٰه‎ علیہ وسلم نصف مال آپؐ کی خدمت اقدس میں پیش کر دیا ہے اور نصف مال اپنے اہل و عیال کیلئے چھوڑ آیا ہوں ۔ اس کے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللّٰه‎ عنہ تشریف لائے ، ان کے پاس جو کچھ تھا وہ سب لا کر آنحضرت صلی اللّٰه‎ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کر دیا ۔ آنحضرت صلی اللّٰه‎ علیہ وسلم نے فرمایا،۔ ابوبکر رضی اللّٰه‎ عنہ اپنے اہل و عیال کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو ؟ تو حضرت ابوبکر رضی اللّٰه‎ عنہ نے عرض کیا : میں نے ان کے لئے اللّٰه‎ اور اس کے رسولؐ کو چھوڑا ہے حضرت عمر رضی اللّٰه‎ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے یقین ہو گیا کہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کبھی بھی بازی نہیں لے جا سکتا ۔ علامہ اقبال مرحوم نے حضرت ابوبکر رضی اللّٰه‎ عنہ کے اس عمل کو اپنے شعر میں یوں پرویا کہ ۔پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس صدیق ؓ کیلئے ہے خدا کا رسول بس آنحضرت صلی اللّٰه‎ علیہ وسلم نے 12 ربیع الاول 11 ہجری کو وصال فرمایا تو آپ صلی اللّٰه‎ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ اول بلافصل منتخب ہوئے۔ آپ صلی اللّٰه‎ علیہ وسلم کے آخری دور میں جھوٹے مدعیان نبوت پیدا ہو چکے تھے ۔ لیکن جب آپ صلی اللّٰه‎ علیہ وسلم نے وصال فرمایا تو کئی اور فرقے اسلام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ ایک تو جھوٹے مدعیان نبوت تھے۔ ان کے علاوہ ایک گروہ ایسا پیدا ہوا جس نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا اور ساتھ ایک اور گروہ سامنے آیا جنہوں نے دین اسلام سے انحراف کیا۔ یعنی مرتدین اسلام۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه‎ عنہ کیلئے یہ بڑا سخت وقت تھا۔ آپؓ نے ان سب فتنوں کا بڑی بہادری، شجاعت اور فہم و بصیرت سے مقابلہ کیا۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللّٰه‎ عنہ کا قول ہے ۔ لقد قمنا بعد رسول اللّٰه‎ صلی اللّٰه‎ علیہ وسلم مقاما کنا نھلک فیہ لولا ان اللہ من علینا بابی بکر”ہم سب رسول اللّٰه‎ صلی اللّٰه‎ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایسے حالات میں گھر گئے تھے، کہ اگر اللّٰه‎ نے ابوبکر رضی اللّٰه‎ عنہ کے ذریعہ ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو ہم ہلاک ہو جاتے۔ “عرف عام میں اگرچہ خلفائے راشدینؓ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو زیادہ شہرت حاصل ہے ۔ لیکن حق یہ ہے کہ اگر خلیفہ اول نے پورے عرب کو ایک اسلام کے علم کے نیچے لا کر نہ جمع کر دیا ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو عظیم کارنامے انجام دئیے۔ ان کیلئے راہ ہموار نہیں ہو سکتی تھی ۔ ( صدیق اکبر رض از مولانا سعید احمد اکبر آبادی ص 11 )حضرت صدیق اکبر رضی اللّٰه‎ عنہ کی مدت خلافت سوا دو برس ہے اور اس قلیل مدت میں آپؓ نے جو عظیم الشان کارنامے انجام دئیے۔ ان کی مثال تاریخ اسلام میں مشکل ہی سے ملے گی۔ مولانا طالب الہاشمی مرحوم لکھتے ہیں کہ ” حضرت ابوبکر صدیق کی مدت خلافت صرف سوا دو برس ہے لیکن اس قلیل مدت میں انہوں نے جو عظیم الشان کارنامے انجام دئیےؒ، ان کا حال پڑھ کر انسان ورطہ حیرت میں غرق ہو جاتا ہے۔ انہیں اپنے دور خلافت کا بیشتر حصہ اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے نمٹنے میں صرف کرنا پڑا ۔ لیکن اس کے باوجود وہ ملکی نظم و نسق سے غافل نہیں رہے، فی الحقیقت انہوں نے اپنی قوت ایمانی، تدبر و فراست اور عزم و ہمت کی بدولت نوزائیدہ خلافت اسلامیہ کو اتنی مستحکم بنیادوں پر قائم کر دیا جس پر ان کے اولوالعزم جانشین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک عظیم الشان تعمیر کر دی ۔ ( سیرت خلیفۃ الرسول : ص 477 )علم و فضل کے اعتبار سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه‎ عنہ بڑے جامع الکمالات تھے۔ تفسیر ، حدیث، علم تفسیر، علم الانساب، شعر و سخن ، حکایت، تحریر و کتابت میں انہیں مہارت تامہ حاصل تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه‎ عنہ کا عظیم الشان کارنامہ ” جمع قرآن مجید “ ہے ۔ موطا امام مالک میں ہے کہ : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه‎عنہ نے حضرت زید بن ثابت انصاری رضی اللّٰه‎ عنہ کو حکم دیا کہ قرآن مجید کے تمام اجزاءکو جمع کر کے ایک کاغذ پر یکجا کرنے کا اہتمام کریں۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللّٰه‎ عنہ نے یہ عظیم الشان کارنامہ انجام دیا ۔وفات : 7 جمادی الثانی 13 ہجری کو حضرت صدیق اکبر رضی اللّٰه‎ عنہ نے غسل کیا ۔ اس دن سردی بہت زیادہ تھی ۔ جس کی وجہ سے بخار ہو گیا ۔ 15 دن مسلسل بخار رہا ۔ 22 جمادی الثانی 13ہجری بروز دو شنبہ مغرب اور عشاءکے درمیان انتقال کیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللّٰه‎ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور حجرہ سیدہ عائشہ رضی اللّٰه‎ عنہا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کئے گئے ۔ وفات کے وقت عمر 63 سال تھی۔

تازہ ترین