• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی کے حوالے سے جاری کی گئی رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومت مالیاتی خسارہ گھٹانے میں کامیاب رہی ہے،بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی نے تجارتی اور خدماتی کھاتوں کے خسارے کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے،تیل کے نرخ کم ہونے سے مہنگائی بھی کم ہوئی ہے،ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر دسمبر 2015ء کے آخر میں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی بیس اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر تک جاپہنچے ہیں ۔ قیمتوں میں کمی کی وجہ سے کپاس کی فصل میں کسانوں کی دلچسپی کم ہوئی اور کپاس کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی تاہم بروقت بارشوں اور خام مال کی بہتر فراہمی کے سبب گندم کی فی ایکڑ پیداوار بڑھی ہے۔ بینک کی رپورٹ کی رو سے اگرچہ قومی معیشت کی صورت حال مجموعی طور پر حوصلہ افزاء ہے تاہم بیرونی قرضوں میں مسلسل اضافہ اور برآمدات میں تین برس کے دوران متواتر کمی جیسے پہلو انتہائی قابل توجہ اور اصلاح طلب ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موجودہ قرضوں کی ادائیگی کے لئے سالانہ سوا چھ کھرب روپے درکار ہیں جبکہ قرضوں کے حجم میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں قوم کو ’’قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ کا نعرہ دیا تھا اور کشکول توڑنے کی مہم چلائی تھی ، لیکن اس بار اس کے معاشی حکمت کاروں نے بظاہر اپنی پالیسی میں ایک سو اسی ڈگری کی تبدیلی کرتے ہوئے معیشت کی بحالی کے لئے بیشتر انحصار بیرونی قرضوں پر کررکھا ہے۔ یہ جاننا عوام کا حق ہے کہ قرضوں کے اس بھاری بوجھ سے قوم کو نجات دلانے کے لیے حکومت کے پاس کیا لائحہ عمل ہے ۔ تیل کی قیمتوں میں کمی ایک حسن اتفاق اور موجودہ حکمرانوں کی خوش نصیبی ہے لیکن یہ تاثر عام ہے کہ قومی معیشت کو جس حد تک مستحکم کیا جاسکتا اور قیمتوں میں متناسب کمی کرکے عوام کو جتنا فائدہ پہنچایا جاسکتا تھا ویسا ہوا نہیں۔ حکومت کے پاس ابھی تقریباً آدھی مدت باقی ہے، کوشش کی جانی چاہئے کہ اس مدت میں ان پہلوؤں سے معیشت کو مزید بہتر بنایا جائے۔
تازہ ترین