• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انٹرنیٹ بلیک میلنگ سے جلد نجات حاصل کرلیں گے، حکومت کو سخت ترین سائبر قوانین بنانا ہوں گے، چیف جسٹس سپریم کورٹ

لاہور(نمائندہ جنگ)چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نےکہا ہے کہ حکومت کو سخت ترین سائبر قوانین بنانے ہونگے، ہم امید کرتے ہیں کہ ہماری خواتین اور دیگر متاثرین بہت جلد انٹرنیٹ کی بلیک میلنگ سے نجات حاصل کرلیں گے، ہمارے اداروں کو سائبر کرائمز کو عام جرم سے ہٹ کر سمجھنا چاہیے اور اس پر بھرپور توجہ دیتے ہوئے متاثرین کو جلد از جلد ریلیف مہیا کرنا ہوگا،موبائل فون اور کمپیوٹر کو مثبت اور منفی استعمال کرنے والے دونوں طرح کے افراد کی کونسلنگ کی ضرورت ہے اس کے لئے مختلف این جی اوز کو کردار کرنا ہوگا۔انہوں نے ان خیالات کا اظہارجوڈیشل اکیڈمی کے زیر اہتمام لاہور کے مقامی ہوٹل میں ’سائبر جرائم ایک عوامی مسئلہ ‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ عام تاثر ہے کہ کمپیوٹر یا موبائل پر فیس بک اور واٹس ایپ پر سائبر جرائم ہوتے ہیں لیکن سب سے پہلے سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ سائبر جرائم کیا ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں سائبر جرائم اور قوانین کے حوالے سے بہت کام ہو رہا ہے۔چیف جسٹس نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان میں متعلقہ ادارے سائبر کرائم کو صرف ایک عام شکایت کی طرح سمجھتے ہیں،سائبر کرائمز کو عام جرم سے ہٹ کر سمجھنا چاہیےاور اس پر بھرپور توجہ دینا ہوگی تاکہ متاثرین کی جلد از جلد دادرسی ہو۔سیمینار سے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مامون رشید شیخ نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ سائبر جرائم کا شکار متاثرین اپنی شکایت کے اندراج میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے سائبر جرائم کا نشانہ بننے والے افراد شدید ذہنی اذیت کا شکار ہوتے ہیں۔ انہوں نے زور دیاکہ وقت کا تقاضا ہے کہ لوگوں کو سائبر کرائمز اور قوانین کے بارے میں آگاہی دی جائے۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس مامون رشید شیخ نے سیمینار میں خصوصی شرکت کی جبکہ اس موقع پر نامزد چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمد قاسم خان، جسٹس شاہد وحید، جسٹس علی باقر نجفی، جسٹس ملک شہزاد احمد، جسٹس مجاہد مستقیم احمد، جسٹس طارق سلیم شیخ، جسٹس جواد حسن، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد جمال سکھیرا، ڈی جی پنجاب جوڈیشل اکیڈمی حبیب اللہ عامر، رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ اشترعباس اور سیشن جج ہیومن ریسورس ساجد علی اعوان بھی موجود تھے۔ سائبر لاء سیمینار میں ججز، وکلاء، فرانزک ایجنسی، پولیس، ایف آئی اے اور دیگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے نمائندوں اور ماہرین نے شرکت کی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ پاکستان میں سائبر کرائمز کے حوالے سے پہلا قانون ہی 2016 میں بنا لیکن اس کے بعد ابتک کچھ کام ہوتا ہوا نظر آرہا ہے مگر باعث افسوس ہے کہ پاکستان میں متعلقہ ادارے اس کو صرف ایک عام شکایت کی طرح سمجھتے ہیں ۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہاکہ پنجاب جوڈیشل اکیڈمی ہمارا بہترین ادارہ ہے۔ پنجاب جوڈیشل اکیڈمی نا صرف ججز بلکہ نظام انصاف سے منسلک ملک بھر کے دیگر اداروں کے افراد کو تربیت فراہم کررہی ہے. پنجاب جوڈیشل اکیڈمی پاکستان می‍ں انصاف کی فراہمی میں اپنا بہترین کردار ادا کررہی ہے. جنرل ٹریننگ پروگرام سے لیکر حساس اور اہم موضوعات پر سیمینارز، کانفرنسز اور ورکشاپس کا انعقاد کا کریڈٹ بھی پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کے پاس ہے۔ سائبر قوانین کے حوالے سے اس سیمینار کا انعقاد بھی پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کا احسن اقدام ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مامون رشید شیخ نے مزید کہا کہ سائبر قوانین کا نفاذ اس ڈیجیٹل ورلڈ میں بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں بہترین سائبر قوانین موجود ہیں لیکن ہماری بہت سارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس پر پوری طرح مہارت نہیں رکھتے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل بزنس نے ہماری زندگیوں کو بدل دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم فزیکل بزنس اور فزیکل بنکنگ سے نکل کر لوجیکل بنکنگ میں داخل ہو چکے ہیں۔ ہمارے معاشرے کی بدقسمتی ہے کہ کسی بھی چیز کے مثبت پہلوؤں کے ساتھ منفی پہلوؤں کو زیادہ اپناتے ہیں۔سوشل میڈیا کے شکار افراد اپنی شکایات کے اندراج میں شرم محسوس کرتے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ لوگوں کو سائبر کرائمز اور قوانین کے حوالے سے ایجوکیشن فراہم کی جائے۔سیمینار کے شرکاء سے جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں مختلف قسم کے سائبر جرائم ہیں جس سے بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہورہے ہیں۔ سائبر جرائم پر قابو پانے کیلئے سائبر قانون بھی موجود ہے لیکن عام آدمی کو سائبر جرائم اور قوانین سے متعلق خاص آگہی نہیں ہے۔ مناسب ایجوکیشن نہ ہونے کی وجہ سے لوگ سائبر قوانین کے بارے میں زیارہ علم نہیں رکھتے، ڈیجیٹل سیفٹی ہر انسان کا بنیادی حق ہے، ہمارے اداروں کو لوگوں کی ڈیجیٹل سکیورٹی کو یقینی بنانے کیلئے موثر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ڈی جی پنجاب جوڈیشل اکیڈمی حبیب اللہ عامر کا کہنا تھا کہ دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی تیزی سے ترقی کررہی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت انسان کی زندگی میں انقلاب آیا ہے جہاں ایک طرف انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوشل کے مثبت پہلو ہیں وہاں بہت سارے منفی پہلو بھی ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے منفی اثرات کی بدولت بہت سارے مسائل بھی سامنے آتے ہیں۔ پوری دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے منفی اثرات سے بچنے کیلئے مختلف قوانین کو اپنایا گیا ہے۔مزید برآں جسٹس شاہد وحید، برطانوی ہائی کمشنر، ڈائریکٹر ایف آئی آے سائبر کرائمز ونگ وقار احمد چوہان سمیت دیگر سائبر کرائمز و سائبر لاء ماہرین نے بھی سائبر کرائمز اور سائبر لاء کے مختلف پہلوؤں، نفاذ کے طریقہ کار اور اثرات پر بھی روشنی ڈالی۔

تازہ ترین