• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ وہ کرپٹ نہیں اس لیے فوج سے نہیں ڈرتے۔ معلوم نہیں اُنہوں نے ایسا کیوں کہا، کیونکہ نہ تو فوج کا تعلق کرپشن کے خاتمہ سے ہے اور نہ ہی کسی پاکستانی کو فوج سے ڈرنے کی ضرورت ہے۔

فوج تو پاکستان کے دفاع کے لیے بنائی گئی ہے، اس وجہ سے اُس سے پاکستان کے دشمنوں کو ڈرنا چاہیے نہ کہ ہمیں۔ بلکہ ملک کے دفاع کے لیے افواجِ پاکستان کے اہلکاروں کی طرف سے اپنی جانیں نچھاور کرنے پر تو فوج سے محبت کی جاتی ہے نہ کہ اُس سے ڈرا جاتا ہے۔

فوج سیاستدانوں کو ڈرانے کا کام بھی نہیں کرتی اور نہ ہی اُسے ایسا کرنا چاہیے۔ کرپشن کون کر رہا ہے، کون نہیں اور اس کا خاتمہ کیسے کیا جائے، یہ بھی پاکستان کے آئین و قانون کے تحت فوج کی ذمہ داری نہیں۔

اگر ماضی میں کچھ غلط ہوتا رہا اور کوئی آمر یا کوئی فوجی جرنیل کسی قسم کے ایڈونچر میں مبتلا رہا اور حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کو بنانے گرانے میں ملوث رہا جس کی بنا پر شاید وزیراعظم نے فوج سے ڈرنے کی بات کی تو یہ پاکستان کی وہ تاریخ ہے جسے بدلنے کی ضرورت ہے نہ کہ اُس کا حوالہ اس لیے دیا جائے جیسے کوئی بڑا اچھا کام ہوا ہے جس کی تقلید کی جائے۔

کرپشن کے الزامات اگر سیاستدانوں پر لگتے رہے تو سول سروس کے ساتھ ساتھ جرنیل اور جج بھی ان الزامات سے بچے نہیں رہے۔ کرپشن کے ناسور کو ختم کرنا ہے تو اس کے لیے فوج کی طرف دیکھنے یا فوج سے یہ امید رکھنے کہ یہ فیصلہ کرے کہ کون کرپٹ ہے اور کون نہیں، کے بجائے وزیراعظم کو اداروں کو مضبوط کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ ہمارا ماضی ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے جہاں سویلین حکمرانوں اور سیاسی مخالفین کے خلاف کرپشن کے کیسز بنائے جاتے رہے جن کا مقصد ہمیشہ پولیٹکل انجینئرنگ رہا۔

اگر واقعی مقصد کرپشن کا خاتمہ تھا تو ذرا عمران خان صاحب یہ تو بتا دیں کہ ہماری تاریخ میں کتنے سیاستدانوں کے خلاف کرپشن کے کیس عدالتوں میں ثابت ہوئے۔ نیب کی ہی تاریخ دیکھ لیں۔ کتنے سیاستدانوں کو نیب نے سپریم کورٹ تک کرپٹ ثابت کیا؟

کوئی ایک دو نام ہی گنوا دیں۔ ہاں نیب نے قاف لیگ بنوانے کے لیے کرپشن کے نام کو خوب استعمال کیا، پی پی پی پیٹریاٹ بھی بنوائی تاکہ وہ حکومت بن جائے جو اُس وقت کے فوجی آمر کی خواہش کے مطابق تھی۔

ایسا نہیں کہ سیاستدان کرپشن نہیں کرتے اور نیب کے پاس کبھی کوئی ٹھوس کرپشن کا کیس نہیں ہوتا، المیہ یہ ہے کہ جب مقصد کرپشن کے خاتمہ کے بجائے سیاسی جماعتوں اور سول حکومتوں کو بنانا بگاڑنا ہو تو ٹھوس کرپشن کے کیس بھی ختم کروا دیے جاتے ہیں اور آمر یا کسی کے اشارہ پر این آر او بھی دے دیے جاتے ہیں اور خاموش ڈیلیں بھی ہو جاتی ہیں۔

اس تماشے کو بند کیا جانا چاہیے۔ اگر مفتاح اسماعیل، شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال جیسے سیاستدانوں کو کرپشن کے الزام لگا کر پکڑا جا سکتا ہے تو عمران خان یاد رکھیں کہ اُن کے خلاف بھی بہت کچھ گھڑا جا سکتا ہے۔

پھر میڈیا کو ہی چابی دے کر جھوٹے سچے الزامات کی بنیاد پر ایک ایسا بیانیہ بنوایا جا سکتا ہے جو پولیٹکل انجینئرنگ کے لیے ضروری ہو۔ یہی ہماری تاریخ رہی ہے جس کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

وزیراعظم اور اُن کے چند ایک وزرا نے بھی مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم اور اُن کے وزرا نے آرٹیکل چھ کا مطالعہ نہیں کیا۔ جس پر آرٹیکل چھ لگتا ہے اُسے تو بچانے کے لیے خان صاحب کی حکومت پورا زور لگا رہی ہے۔

جنرل مشرف کو عدالت نے غدار قرار دے کر موت کی سزا سنائی تو اس پر خان صاحب کی حکومت عدلیہ پر ہی برس پڑی۔ اگرچہ آرٹیکل چھ مولانا کے کیس میں غیر متعلقہ ہے لیکن میں خان صاحب کی حوصلہ افزائی کروں گا کہ وہ یہ مقدمہ ضرور دائر کریں تاکہ یہ تو پتا چلے کہ مولانا کس کے اشارہ پر اسلام آباد آئے اور کس کی یقین دہانی پر دھرنا ختم کیا۔

ویسے یہ ممکن تو نہیں لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ 2014کے دھرنے سے شروع ہونے والے کھیل کے پیچھے موجود کرداروں کو بھی بےنقاب کر دیا جاتا۔ جہاں آرٹیکل چھ کو لگنا چاہیے اُس طرف تو خان صاحب جاتے نہیں اور تمام سازشوں اور خرابیوں کا ذمہ دار اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ میڈیا کو ہی سمجھتے ہیں۔

مجھے تو ڈر ہے کہ اب کہیں خان صاحب میڈیا اور صحافیوں کے خلاف بھی آرٹیکل چھ لگانے کا اعلان نہ کر دیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین