• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یار لوگ طرح طرح کی باتیں بناتے رہے کہ آئی ایم ایف سے وزیراعظم عمران خان کا ہاتھ ملانا وزیر خزانہ کو بہت بُرا لگا تھا، وغیرہ وغیرہ۔ اُن کی غیر موجودگی میں معیشت اُس مریض کی مانند تھی جسے بار بار آئی سی یو میں لے جاکر آکسیجن ٹینک سے جوڑ دیا جاتا تھا پھر وزیراعظم کاجملہ ’گھبرانا نہیں‘ سن کر اُس کو آئی سی یو سے نکال کر کمرے میں شفٹ کر دیا جاتا۔ وزرا کی جان میں جان آتی۔

آپا فردوس اعوان صاحبہ کی ایک نئی پریس کانفرنس کا بندوبست ہوتا مگر ان کے پاس نون لیگ کے خلاف کچھ کہنے کو نہیں رہ گیا تھا۔ وجہ نون لیگ کی قیادت ہے جو اب سمٹ کر لندن میں جمع ہے اور میاں صاحب کے پلیٹ لیٹس اوپر نیچے ہو رہے ہیں۔

صرف مریم صفدر کا انتظار ہے۔ کسی وقت اُن کی قسمت کا ستارہ چمکے گا کیونکہ میاں صاحب نے آپریشن بغیر بیٹی کے کرانے سے صاف انکار کر دیا ہے، ان کو شاید نہ اپنے حقیقی بھائی پر بھروسہ ہے۔

 نہ ہی اپنے بیٹوں اور بھتیجوں پر اعتماد رہا ہے۔ اس لئے وہ اپنی چہیتی بیٹی کے فراق میں گھل رہے ہیں۔ ایک دن قوم یہ خبر بھی سنے گی کہ میاں نواز شریف کے پلیٹ لیٹس اتنے نیچے آگئے ہیں کہ ان کی جان کو خطرہ ہو چلا ہے۔پھر پی ٹی آئی والوں کی دوڑیں لگ جائیں گی اور اس طرح مریم صفدر راتوں رات لندن روانہ ہو جائیں گی۔

پھر کوئی مسیحائی معجزہ ہوگا۔ عمران خان کے بُرے دن شروع ہوں گے جب میاں صاحب اینڈ کمپنی پاکستان آنے کی تیاری کرے گی۔ بیچ میں چوہدری نثار علی خان کا کیا کردار ہوگا، وہ ابھی پُراسرار سا لگ رہا ہے۔

غالباً مک مکا ہونے کی سبیل نکل آئے گی۔ اس کی وجہ بھی پی ٹی آئی والوں کی نااہلی اور اندرونی چپقلش ہوگی۔ وزیراعظم وزیراعلیٰ پنجاب بزدار پر کوئی حرف نہیں آنے دیں گے۔ یہ ان کی واحد پسند اور ضد ہے،جو برقرار رہے گی۔ قوم چند ارب کی سبسڈی سے اپنا پیٹ نہیں بھر سکے گی۔

وہ تو بھلا ہو کسی پی ٹی آئی والے کا چاولوں کا بزنس نہیں ہے ورنہ قوم اب آٹے اور چینی کے بعد چاول کا بحران بھی آ جاتا۔مگر افغانستان میں آٹا کھایا جاتا ہےجس سے روٹیاں بنتی ہیں،وہ اسمگلروں نے پہلے ہی سمیٹ کر اربوں روپے کما کر عمران خان کے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا اور عمران خان اور ان کے وزراء ان اسمگلروں پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے۔

اس کی وجہ یہ کہ انہوں نے پی ٹی آئی حکومت لانے اور پھر بار بار اتحادیوں کو روکنے کیلئے سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔آخر کروڑوں روپے خرچ کر کے اربوں کمانا بھی تو ان کاحق بنتا ہے۔اب لے دے کر دالیں رہ گئی تھیں تو وہ بھی 100روپے کلو سے بڑھ کر 160روپے کلو تک پہنچادی گئی ہیں۔

پچھلی حکومتیں کرپشن کی آڑ میں قوم کو لوٹ رہی تھیں۔پی ٹی آئی کے دور میں اسمگلروں نے مہنگائی، ذخیرہ اندوزی کی آڑ میں یہ ڈرامہ رچایا ہواہےجو ڈیڑھ سال سے جاری ہے۔اب کہا جا رہا ہے کہ ہم ریکوڈک کا سونا بیچ کر قرضے اتاریں گے۔ گویا نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔

قوم خود غُل مچاکرتھک جا ئے گی پھر خاموشی سے ان ناپید اور مہنگی اشیا خریدنے پر مجبور ہو گی۔ فی الحال شبر زیدی سے جان چھرانے کی مکمل تیاری کر لی گئی ہے۔ جو صنعتکاروں اور دکانداروں سے ایک سال سے الجھے ہوئے تھے۔ دیکھتے ہیں ایف بی آر اب کس کے حوالے ہوگا۔

آئی ایم ایف کی نئی شرائط آگئی ہیں جن میں 400ارب کے مزید ٹیکس لگانے کی فرمائش سرفہرست ہے۔ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلوانے کی آخری کوشش میں جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں کو دس، دس سال کیلئے جیل بھجوا کر امریکہ سے داد حاصل کر لی ہے۔

ادھر کراچی والوں پر ایک بڑے گروپ کی طرف سے 35فیصد اضافے کا ناگہانی بوجھ ڈال دیا گیا جس پر نہ صوبائی حکومت داد رسی کر رہی ہے اور نہ ہی مرکزی حکومت اس کے خلاف کوئی عملی اقدام کر رہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ پاکستان کا سب سے بڑا مافیا ہے جو ہر حکومت میں شامل رہا ہے۔فی الحال عوام سڑکو ں پر رُل رہے ہیں۔

اب وہ دن دور نہیں جب یہ مل کر کسی ادارے کا گھیرائو کریں گے، لاوا پک چکا ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کے ناظم اعلیٰ نے ان الاٹیز کی مدد کیلئے عَلم بلند کیا تھا، کیا لالی پاپ دیا گیا کہ یہ جماعت بھی پُراسرار طور پر خاموشی اختیار کر کے ان کو بےیار و مددگار چھوڑ کر ادارہ نور حق میں جا چھپی ہے اور سراج الحق پنڈی روانہ ہو گئے ہیں۔

الغرض تبدیلی کی آڑ میں تمام ناجائز کام جائز قرار دیے جا چکے ہیں۔ قوم بےزار ہے اور اسمبلیوں میں ٹین پرسنٹ کی صدائیں لگا کر ایک دوسرے پر حملے جاری ہیں۔

کیا صبر پروف قوم اس دھرتی پر رہتی ہے، جس کا نام پاکستانی قوم ہے۔ قوم کو جلد خوشخبریاں ملنے والی ہیں۔ گھبرانا نہیں۔ کل کے اخباروں سے معلوم ہوا کہ گوادر پورٹ پر 4لاکھ افراد کو نوکریاں ملنے والی ہیں۔

تازہ ترین