• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی ایم ایف کے پاکستان کو بیل آئوٹ پیکیج کی 450ملین ڈالر کی تیسری قسط کے اجرااور گزشتہ 3 ماہ میں مالی اصلاحات کے جائزے کیلئے گزشتہ دنوں آئی ایم ایف کا وفد پاکستان پہنچا اور مشیر خزانہ، وزیر اقتصادی امور، ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک کے حکام سے مذاکرات کئے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال جولائی میں آئی ایم ایف نے پاکستان کیلئے 12 اقساط میں6 ارب ڈالر کا قرضہ منظور کیا تھا جس کی 991.4ملین ڈالر کی پہلی قسط جولائی 2019ء، 452ملین ڈالر کی دوسری قسط دسمبر 2019ء اور اب مارچ 2020ء میں 450ملین ڈالر کی تیسری قسط کے اجراء کیلئے آئی ایم ایف کا مشن پاکستان آیا ہے۔

آئی ایم ایف نے ترقیاتی منصوبوں پر رواں مالی سال کے پہلے 7مہینوں میں مختص 429ارب روپے کے بجائے صرف 188 ارب روپے خرچ کئے جو 27فیصد بنتا ہے، پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ترقیاتی منصوبوں کے بجٹ کو وفاق اور صوبوں میں پورا خرچ کیا جائے تاکہ ملک میں معاشی سرگرمیاں اور گروتھ تیز کی جاسکے۔

آئی ایم ایف نے ایف بی آر کے ریونیو وصولی کے ہدف میں کمی پر بھی مایوسی کا اظہار کیا جس میں رواں مالی سال کے ابتدائی 7 مہینوں میں 218ارب روپے کی کمی ہوئی ہے جبکہ مالی سال کے آخری تک یہ کمی 750ارب روپے کی ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے حکومت نے آئی ایم ایف سے اصل ریونیو ٹارگٹ 5550ارب روپے سے کم کرکے 4950ارب روپے کرنےکی درخواست کی ہے جبکہ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ ٹیکسوں کی کمی کو نئے ٹیکسز لگاکر پورا کیا جائے اور اطلاعات ہیں کہ حکومت منی بجٹ کی تیاری کررہی ہے تاکہ کچھ اشیاء پر ریگولیٹری اور کسٹم ڈیوٹی کم کرکے امپورٹ اضافے کے ذریعے کسٹم ڈیوٹی سے ریونیو حاصل کئے جاسکیں۔

ملک میں معاشی سرگرمیوں کے سکڑنے، گاڑیوں کی پیداوار اور فروخت میں ریکارڈ کمی اور بڑے درجے کی صنعتی گروتھ میں 6فیصد کمی سے بھی حکومت کو ریونیو کے اہداف حاصل نہیں ہوسکے۔

آئی ایم ایف معاہدے کے تحت حکومت کو رواں مالی سال 650ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے تھے، اس کے علاوہ آئندہ دو سالوں میں 700ارب روپے کے ٹیکس مراعات 350ارب روپے سالانہ کے حساب سے ختم کرنی تھیں۔ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں دو مرحلوں میں اضافہ بھی معاہدے میں شامل تھا۔

بجٹ خسارہ جو 7فیصد متوقع تھا، میں کمی لانے کیلئے 1600ارب روپے کے گردشی قرضوں کو ختم کرکے پاور سیکٹر میں اصلاحات اور سبسڈیز ختم کرنا تھیں جو نہیں ہوسکا۔ خسارے میں چلنے والے ادارے اور گردشی قرضے موجودہ حکومت کی ناکامی اور ملکی معیشت پر ناقابل برداشت بوجھ ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ کو 13.2فیصد تک بڑھانے کے باوجود افراط زر کم ہونے کے بجائے بڑھ کر 14.6 فیصد تک پہنچ چکا ہے جبکہ بینکوں کے لینڈنگ ریٹس 15سے 16فیصد ہوجانے کی وجہ سے ملک میں صنعتکاری کا عمل جمود کا شکار ہے جس کی وجہ سے ملک میں نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا نہیں ہورہے۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق رواں مالی سال خطے میں پاکستان کی سب سے کم جی ڈی پی گروتھ 2.5 فیصد متوقع ہونے کی وجہ سے ملکی جی ڈی پی میں 33ارب ڈالر کی کمی سے 40لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے اور 10لاکھ افراد بیروزگار ہوجائیں گے۔ جی ڈی پی گروتھ میں کمی زراعت، بڑے درجے کی صنعتوں اور کنسٹرکشن کے شعبوں میں واضح طور پردیکھی جاسکتی ہے۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان قرضے کی بات نئی نہیں۔ 1958سے ہم نے 21بار آئی ایم ایف سے قرضے لئے ہیں۔ یہ ادارہ بجٹ خسارے کو پورا کرنے کیلئے ممبر ممالک کو اپنی شرائط پر قرضے فراہم کرتا ہے لیکن آئی ایم ایف کی سخت شرائط کی وجہ سے معاشی ترقی کی رفتار سست ہوجاتی ہے۔

پاکستان کی معیشت پر آئی ایم ایف کا آسیب 1960ء کی دہائی میں نازل ہوا تھا جس سے حاصل کئے گئے قرضوں پر سود بتدریج بڑھتا گیااور مارچ 2019ء میں ہمارے بیرونی قرضے تقریباً 105 ارب ڈالر تک پہنچ گئے جس میں 11.3ارب ڈالر پیرس کلب، 27ارب ڈالر دوست ممالک اور دیگر ڈونرز، 5.765ارب ڈالر آئی ایم ایف اور 12ارب ڈالر کے بین الاقوامی یورو اور سکوک بانڈز شامل ہیں۔

اس دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گرنے کی وجہ سے آئی ایم ایف کے قرضوں کا حجم بھی از خود بڑھتا گیا جس کو اتارنے کیلئے حکمراں مزید قرض لینے پر مجبور ہوتے گئے جبکہ ان قرضوں سے پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے ایکسپورٹ میں کوئی خاص اضافہ نہ ہوسکا۔

روپے کی ڈی ویلیو ایشن، نئے ٹیکسوں کے نفاذ، بینکوں کے شرح سود میں اضافے سے ملک میں مہنگائی یعنی افراط زر میں اضافہ ہوا اور آج عوام اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے پریشان نظر آتے ہیں جس سے پی ٹی آئی حکومت کی مقبولیت کم ہوتی جارہی ہے۔ پاکستان خطے میں سب سے سستا ملک جانا جاتا تھا لیکن آج پاکستان میں عام آدمی دو وقت کی روٹی سے محروم ہوگیا ہے۔

ہمارے آدھے سے زیادہ ریونیو قرضوں اور سود کی ادائیگی میں چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے تعلیم، صحت، پینے کے صاف پانی اور سماجی شعبوں کے ترقیاتی منصوبوں کے اخراجات پورے کرنے کیلئے ہمارے پاس فنڈزدستیاب نہیں۔ ملکی قرضوں کے باعث 2011ء میں ہرپاکستانی 46,000روپے، 2013ء میں61,000روپے اور آج 1,72000 روپے کا مقروض ہوچکا ہے۔

ان قرضوں کیلئے ہم اپنے موٹر ویز، ایئرپورٹس اور دیگر قومی اثاثے قرضہ دینے والے اداروں کو گروی رکھواچکے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے ایک واضح حکمت عملی کے تحت مہنگے شرح سود کے قرضے ترجیحاواپس کرے تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں پر قرضوں کا بوجھ کم کرسکیں۔

تازہ ترین