• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بادشاہ جی! جب لُٹ گئی ساری خدائی تو آپ دینے لگے دہائی، ہائے مہنگائی! ہائے مہنگائی! کمال ہی نہیں ہوگیا سرکار! اب تو آپ ہمیں حیران ہی نہیں پریشان بھی کرنے لگے ہیں۔ ہمیں تو ایسے لگنے لگا ہے کہ آپ ہماری بےبسی اور غربت کا سرِ بازار مذاق اُڑا رہے ہیں۔ بادشاہ جی! یہ ڈی چوک نہیں، پرائم منسٹر ہائوس ہے۔ اب تو آپ شیشے کے اس گھر کے بےتاج بادشاہ ہیں۔ یہاں بیٹھ کر آپ نے ہماری تقدیر کے فیصلے کرنے ہیں۔ جب سے آپ بادشاہ بنے ہیں کبھی ہم ڈی چوک کو دیکھتے ہیں اور کبھی شیشے کے اس گھر کو۔ سرکار! کبھی شیشے کے گھر سے باہر نکل کر بھی دیکھیں۔ آپ کی رعایا کی حالت کیا ہو گئی ہے؟ آپ کی بادشاہت سلامت رہے۔ دو سال ہونے کو آگئے آپ کی طرف سے کوئی خیر کی خبر ہی نہیں آرہی۔ سرکار! ہماری تو حالت بہت پتلی ہو گئی، کچھ رحم فرمائیے۔ اب تو ہمارے دانے مکنے لگے ہیں۔ سانسوں کی ڈور حلق میں آکر ہائے ہائے کے درد سے چیخیں نکلوا رہی ہے۔ گنجے عوام نہائیں گے کیا، نچوڑیں گے کیا؟ نوبت فاقوں سے بھی آگے نکل چکی ہے۔ شہر کے لوگ غربت کے ہاتھوں ویران ہو رہے ہیں۔ اب تو تاج پوشی پر ڈھول تاشے پیٹنے، دیگوں پر دیگیں چڑھانے والے بھی دہائیاں دے رہے ہیں اور قرض مانگ مانگ گزارے پر مجبور ہو چکے ہیں جو آپ کی صحت و سلامتی کی دعائیں مانگتے تھے اب پکڑ دھکڑ کی لگڑ بگڑ سرکار سے نجات کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔ بادشاہ جی! آپ کے اپنے ہرکارے آئے دن بھانت بھانت کی جو بولیاں بول رہے ہیں۔ شیشے کے گھر کے اندر کی کہانیاں باہر لا رہے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیے کہ تاجِ شاہی کے نو رتنوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہے جو عقل سے کام کررہا ہو۔۔ معصوم بچوں سے جنسی زیادتی و قتل کے واقعات کی روک تھام کیلئے سرعام پھانسی کی حمایت میں علی محمد خان کی قرار داد کا جو حشر آپ کے وزیر قانون ساز نے اسے خلاف شریعت و آئین قرار دے کر کیا، کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ قرارداد پیش کرنیوالے وزیر کو آپ کی اشیر باد حاصل تھی یا وزیر خلاف شریعت کو آپ کی سرپرستی؟ کوئی شیریں مزاری صاحبہ سے پوچھ کر بتائے کہ انسانی حقوق کی علمبرداری کی ٹھیکے داری تو انہیں مل گئی مگر عمل داری بھی کسی نے کرانی ہے کہ نہیں۔ رہی سہی کسر وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے نکال دی۔ سرکار! کیا ان وزیروں سے کوئی پوچھ سکتا ہے کہ کون ریاست ِمدینہ چاہتا ہے اور کون نئے پاکستان میں پرانے پاکستان کی بنیادیں کھوکھلی کرکے ان معصوم بچوں کو درندہ صفت انسانوں سے بچا سکتا ہے۔ رنگ برنگی بولیاں بولی جارہی ہیں کوئی بتائے حکومت اِدھر ہے یا اُدھر۔ بی بی فردوس عاشق سے بھی پوچھنا چاہئے کہ محترمہ کی پہلے ہی بڑی مشکل سے توہین عدالت کے شکنجے سے غیرمشروط معافی مانگ کر جان خلاصی ہوئی تھی اب پھر دعوے پر دعوے داغے جارہی ہیں اور پھر واضح الفاظ میں کہہ رہی ہیں سارے چور عدالتوں سے ریلیف لیکر باہر آرہے ہیں لیکن وزیراعظم چوروں کو نہیں چھوڑیں گے۔ ناجائز ذرائع سے اثاثے بنانے والوں کو جواب دہ ہونا ہوگا۔ کیایہ عدلیہ پر کھلا عدم اعتماد نہیں؟ انصاف کے تقاضے پورے کرنا عدلیہ کا کام، چوری ڈکیتی کے ثبوت فراہم کرنا حکومت اور متعلقہ اداروں کی ذمہ داری۔ جب آپ مفروضوں پر مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنائیں گے اور عدلیہ شواہد کی بنیاد پر ریلیف دے گی تو پھر پریشانی کیسی؟ اور سوال کیسا؟ ہمارے حال پر رحم فرمائیے۔عوام آپ سے زندہ رہنے کی بھیک مانگتے ہیں۔ سرکار کیا آپ اتنا بھی نہیں کر سکتے۔ جب عوام بےروزگار ہوگئے تو آپ کو مہنگائی یاد آگئی اور اب اجلاس پر اجلاس ہی بلائے جارہے ہیں؟ کیا کوئی عملی اقدام ہوگا بھی یا نہیں؟ سرکار آپ کی ناک تلے رعایا سرِ بازار لُٹ گئی، یہاں سارے وارداتیے بیٹھے ہیں اور آپ خود ہی تو کہتے ہیں کہ مجھے سب پتا ہے کہ آٹا، چینی مافیا کون ہے؟ تو پھر آپ ان کی گردن پر ہاتھ ڈالنے سے کیوں گھبراتے ہیں ؟ اگر اب بھی آپ نے کچھ نہ کیا توپھر مافیا آپ کو لے دے جائے گا۔

تازہ ترین