کشمیر سے اہلِ پاکستان کی محبت کوئی ڈھکی چھپی نہیں- یہ تعلقات صرف سرکاری سطح پر بار بار دہرائی جانے والی ’’سیاسی، سفارتی اور اخلاقی امداد‘‘ کی یقین دہانیوں تک ہی محدود نہیں کہ بیرونی شہ پر کام کرنے والے ملک دشمن عناصر اس پر حرف اٹھا سکیں- یہ رشتہ اسقدر مضبوط ہے کہ کھانے کے تیل سے بناسپتی گھی اور صابن سے ہاؤسنگ سوسائٹیوں، اسکولوں، سڑکوں اور چوراہوں کے نام تک کشمیر سے منسوب ہیں- اور تو اور کشمیر کے بارے میں فکرمند بیشمار دکانداروں نے تو اس کی آزادی تک ادھار بند کرنیکا اعلان کرکے قوم کا ضمیر جھنجوڑنے کا بھی اہتمام کر رکھا ہے- یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھار بھارت کے ساتھ خیرسگالی کے جذبے کے اچانک اظہار کی ضرورتوں کے پیشِ نظر کشمیر سے منسوب شاہراہوں کے سائن بورڈ وقتی طور پر اتارے بھی گئے ہیں مگر اس سے متعلقہ نتائج برآمد نہ ہوئے تو کشمیر کی محبت نہ صرف دوبارہ جگائی گئی بلکہ اس کے خصوصی انتظام و انصرام کی اس قدر کوششیں ہوئیں کہ لوگوں کے ذہنوں سے ماضی کا عذاب محو ہوگیا-
حق تو یہ ہے کہ پچھلے تین برسوں سے کشمیر کے لئے خاص محبت میں شدت پیدا کرنے کیلئے بہت ہی زیادہ کوششیں ہورہی ہیں- اب آلات غنا کی مدد سے بھی عوام میں جوش وخروش پیدا کرنے والے گانے بنائے جارہے ہیں- ففتھ جنریشن یا ہائبرڈ وار کے اس دور میں ہر طرح کے میدان میں لڑنے کی صلاحیت ہی کامیابی دلاسکتی ہے- اس لئے بعید نہیں کہ دشمن کا دھیان بٹانے اور اس کے افکار و اعمال کو حیران و پریشان کرنے کیلئے عنقریب نئے طرز اختیار کئے جائیں گے- کشمیر میں بیٹھے بلکہ یوں کہئے کہ پھنسے ہوئے میرے ایک دوست سلیم احمد مرحوم کے ایک شعر میں تصرف کرکے اس کو کچھ اسطرح سے بیان کرتے ہیں کہ خود بخود حقیقت کا ادراک ہونے لگتا ہے:
میں کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بناتا ہوں
پھر اس کے بعد جھوٹی فتح کے منظر بناتا ہوں
کشمیر کو ملنے والی اس درجہ محبت کو دیکھتے ہوئے میں نے حالیہ پانچ فروری کو قصدا گھر میں بیٹھنے کا ارادہ کیا مگر آخری وقت مروت آڑے آئی اور ایک تقریب میں جانا ہی پڑا- کشمیری زبان کاایک مقولہ جس کا ترجمہ ہے ’’ناکامی کی وجہ لحاظ داری ہے‘‘- بہرحال ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں ہونیوالی اس چھوٹی سی تقریب میں بمشکل ڈیڑھ درجن افراد شریک تھے، جس میں قابلِ حیرت بات یہ تھی کہ میڈیا کے افراد مدعو نہیں تھے ورنہ کشمیر کے نام پر دو افراد بھی مل جائیں، اگر آغاز سے اختتام تک صحافیوں کی موجودگی نہ ہو تو کوئی منہ کھولنے کیلئے بھی تیار نہیں ہوتا- مجلس میں شامل سب ہی خواتین و حضرات مقامی تھے جن میں زیادہ تر ریٹائر ہوکر فراغت کی زندگی گزار رہے تھے- کارروائی کا آغاز انگریزی میں ہوا شاید اس لئے کہ یہ آواز بین الاقوامی برادری تک پہنچ جائے- تلاوت کے بعد ایک ریٹائرڈ افسر جنہوں نے بقول ان کے لائن آف کنٹرول پر بھی فرائض انجام دیئے تھے نے پرجوش تقریر کی جو میں اپنی علمی کم مائیگی کے سبب زیادہ نہیں سمجھ سکا مگر حاضرین نے انہیں خوب داد دی- اس کے بعد ایک کشمیری نژاد خاتون سیاستدان نے وہ گرجدار تقریر کی کہ لوگ یہ تسلی کرنے کیلئے بار بار ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے کہ کہیں وہ کسی انتخابی مہم میں تو نہیں ہیں- انھوں نے اپنے خطاب کے اختتام پر لگ بھگ دو منٹ تک وہ زوردار نعرے لگائے کہ مجھے خدشہ ہوا کہ عنقریب انہیں قومی اثاثہ قرار دےکر ہمیں میڈیا کے توسط سے روزانہ ان کے بیانات سے جبرا فیضیاب کرایا جائے گا- میں چاہتے ہوئے بھی ان کے مشینی انداز میں پیش کردہ نعروں کا جواب نہیں دے پایا جس کی وجہ سے حاضرین پر میرا کوئی اچھا تاثر قائم نہیں ہوا- میری باری آئی تو میں نے مختصر تقریر کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کسی ایجوکیشنل کنسلٹنسی کی جانب سے منعقد کروائی گئی اس تقریب کی روح رواں محترمہ کے چہرے سے رہی سہی خیرسگالی کے جذبات بھی زائل ہوگئے- میری تقریر ختم ہوتے ہی انہوں نے لقمہ دیا کہ پاکستان میں آزادیٔ اظہار کی کھلی آزادی ہے جس کو سن کر اسلئےمجھے احساس ہوا کہ موصوفہ نے نہ صرف یہ کہ موقع محل کی مناسبت کے بغیر بے تحاشہ اشعار پڑھے اور ان کا وہ حال کیا کہ دل میں یہ خواہش جاگی کہ کاش یہاں اتنی بھی آزادی نہ ہو کہ لوگ اس طرح کھلے بندوں اردو کا قتل عام کرتے پھریں اور ان سے کوئی بازپرس بھی نہ ہو-