• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:ڈاکٹرغلام نبی فلاحی۔۔لندن
جدو جہد آزادی کشمیر کے ایک عظیم رہنما سید علی شاہ گیلانی آج کل بہت ہی بیمار ہیں۔ کل جب ان سے فون پر بات ہوئی تودعا کی درخواست کی۔ اللہ تعالٰی انہیں شفاء عاجلہ اور صحت کاملہ سے نوازے (آمین) محترم گیلانی صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں ‘ وہ اسلامی انقلاب اور آزادی کے نقیب‘ برصغیر کے منجھے ہوئے سیاست دان ‘ شعلہ بیان مقرر ہی نہیں بلکہ وہ موجودہ دور کے ان چند گنے چنے افراد میں سے ہیں جو نہ صرف دین اسلام پر بلکہ دنیاوی حالات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ 29ستمبر 1929ء میں سرینگر سے پچپن میل دور مشہور و معروف جھیل ولر کے کنارے زوری منز نامی گائوں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اگرچہ کشمیر میں ہوئی مگر اعلٰی تعلیم لاہور پاکستان میں حاصل کی، وہ گزشتہ دس سال سے بھارتی ملٹری کے کڑے پہرے میں گھر کے اندر محصور و مقید ہیں۔ 5 اگست 2019ء کو جب بھارتی حکمرانوں نے کشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ختم کرکے پوری ریاست جموں و کشمیر کو ہند یونین میں تبدیل کرنے کے لیے پوری ریاست کو ایک بڑے جیل خانہ میں تبدیل کردیا۔ اس کے بعد جبکہ تمام کشمیری ایک شاک سے گزررہے ہیں اور گیلانی صاحب کے چاروں طرف پہرہ سخت کردیا گیا گیا، سوائے اہل خانہ کے اور کسی کو ان سے ملنے نہیں دیا گیا۔ گیلانی صاحب کے لیے جیل کوئی نئی چیز نہیں بلکہ وہ گذشتہ چھ دہائیوں سے بھارتی تعذیب خانوں کے ظلم و بربریت کا شکار رہے ہیں۔ اب جبکہ گیلانی صاحب نوے برس سے بھی زائد کے ہوچکے ہیں جہاں ضعیفی اور کمزوری ایک لازمی سا جز تصور کیا جاتاہے،مگراس اللہ کے بندے کے چہرہ سے دکھ یا درد کا کوئی شائبہ تک محسوس نہیں ہوتا البتہ آواز میں ضرور نقاہت سی پیدا ہوئی ہے۔ میں نے ان سے مختصراً پوچھا کہ کشمیر کی کیا صورتحال ہے تو کہنے لگے آپ تو جانتے ہی ہیں، اس وقت پورا کشمیر بڑے تعذیب خانے کا منظر پیش کررہا ہے ،ہمارا مقصد اللہ کی رضا جوئی ہے اور ہمارا کام دین اسلام کی خدمت ہے،اس میں کامیابی بھی کامیابی ہے اور ناکامی بھی کامیابی ہے۔ گیلانی صاحب کو تو میں بچپن سے جانتا ہوں۔ انکا ہمارے گھر سے قریب کا رشتہ بھی ہے اور پھر نظریاتی ہم آہنگی بھی۔ خیر آج تو میں ان سے ہزاروں میل دور ہوں اب صرف ٹیلیفونک رابطہ ہی بات چیت کا ایک واحد ذریعہ تھا مگر یہ سلسلہ بھی گذشتہ سات ماہ سے بند ہے۔ انکا پاسپورٹ انکے سیاسی نظریات کی وجہ سے 1981ء سے ضبط ہے۔ بحالی کے لیے ہزار ہا کوششیں کی گئیں مگر اسی انتظار میں چالیس سال بیت گئے اور حالات یہاں تک پہنچے کہ وہ اپنے واحد آدھے گردے پر اپنی زندگی گزاررہے ہیں۔ کسی دل جلے شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ۔ترک دنیا کا سماں ختم ملاقات کا وقتاس گھڑی اے دل آوارہ کہاں جاؤ گےگیلانی صاحب عمر عزیز کی 90بہاریں دیکھ چکے ہیں مگر انکی داڑھی اور سر کے بالوں میں کوئی کمی نظر نہیں آتی انکا چہر آج بھی ہشاش بشاش نظر آتا ہے،انکا چھریرا پن ان کی سبک رفتاری اور تیزگامی میں انکا معاون رہاہے۔ ٹیلیفوں رکھنے کے بعد میں دن بھر سوچتا رہا کہ ظالم کتنا بزدل ہوتا ہے کہ ہاتھ پائوں باندھ کر بھی اسے چین محسو س نہیں ہوتا۔سید علی گیلانی کا آبائی گھر تو کئی سال قبل بم دھماکوں کے ذریعہ زمین بوس کردیا گیا تھا ۔حکومت انکے اعزاء، رشتہ داروں کو گزشتہ پندرہ سالوں سے اس طرح ستارہی ہے جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ موصوف کو تو دشمنوں نے پہلے ہی معذور بنا رکھا تھا‘ انکے مشیر پہلے ہی ان سے چھین لیے گئے تھے۔ اپنوں اور غیروں نے ہمیشہ انکے پر نوچنے کی کوشش کی، مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے۔ پاکستان کی محبت انکے جسم میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، جس کی وہ مفت میں وکالت کرتے رہے ایک زمانے میں یہاں کے حکمرانوں نے بھی بظاہر ان سے اپنی برآت کا اظہار کیا ۔مشرف دور میں انکا دفتر واقع اسلام آباد بھی سربمہر کردیا گیا۔ انہیں اس سے کتنی اذیت پہنچی ہوگی اسکو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتاہے ۔آج کے دن نہ پوچھو‘ مرے دوستو، زخم کتنے ابھی بخت بسمل میں ہیںدشت کتنے ابھی راہ منزل میں ہیں، تیر کتنے ابھی دست قاتل میں ہیںیہ سب دراصل اس بنا پر ہورہا تاکہ سید علی گیلانی کو جھکایا جائے اور وہ اپنی پالیسی میں کوئی نرم رویہ اختیار کریں مگر پاکستانی اور بھارتی حکمرانوں غالباً اس کا علم نہیں کہ سید علی گیلانی کوئی عام طرح کے سیاست دان نہیں جو وقت کے ساتھ اپنا پینترا بدلتے رہتے ہیں، وہ ایک فکر ، ایک نظریہ اور ایک تحریک کے علمبردار ہیں اور جس راستے کا انہوں نے انتخاب کیا وہ تو بڑے بڑے صابر اور اولوالعزم انسانوں کا راستہ ہے۔ گیلانی صاحب سے میں نے ایک بار پوحھا کہ کیا حرج ہے اگر آپ اپنے موقف میں تھوڑی سے لچک پیدا کرتے ۔ اسلئے کہ زمینی حقائق تو اس وقت آپ کے حق میں نہیں، اور پھر پاکستان بھی ایک مخصوص نرغے میں گھرا ہوا ہے،بین الاقوامی برادری بھی مسئلہ کشمیر کوحل کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہی ہے،وادی کی صورت حال بھی دن بہ دن بدلتی جارہی ہے حالات سنگین سے سنگین تر ہوتے جارہے ہیں، انکا جواب تھا کہ میں اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوں، اگر یہ سب سہارے بھی ختم ہوجائیں اور پاکستان بھی اپنی حمایت واپس لے لے مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہے، میں نے اللہ پرتوکل کیا ہے وہی میرا سب سے بڑا سہارا ہے۔ اور ہم نے کسی فر د یا کسی خاص گروہ کے لیے یہ تحریک شروع نہیں کی ہے ۔ گویا وہ زبان حال سے کہہ رہے تھے۔اس دور میں سب مٹ جائیں گے، ہاں باقی وہ رہ جائے گا جو قائم اپنی راہ پہ ہے اور پکا اپنی ہٹ کا ہےسیدعلی گیلانی 1965ء سے ہی گوناگوں بیماریوں اور مختلف عوارض سے نبرد آزما رہے مگر اس کے باوجود ان کی ظاہری استقامت اور تیرکی طرح سیدھا جسم ان کے اندرونی پختگی، اصابت رائے اور سلامت روی کا مظہر ہے ۔ جماعت اسلامی سے وابستہ ہونے کے بعد آپ نے قطعی طور فیصلہ کرلیا کہ اپنی بقیہ زندگی اسی کے ساتھ مل کر اعلائے کلمۃاللہ کی جدوجہد میں گزاردیں گے۔ یہ عظیم کام گویا آپکا منتظر تھا آپ نے شبانہ روز محنت سے دلوں میں آزادی کی ایسی جوت جگادی کہ راکھ میں دبی ہوئی چنگاریاں سلگ اٹھیں۔ وادی کے طول و عرض میں بستی بستی اورکوچہ کوچہ گھوم کر اپنی شعلہ نوا تقریروں سے سید محترم نے نوجوانوں کے اندر اضطرا ب پیدا کردیا۔ سوپور کو سید علی گیلانی نے اہم پیلیٹ فارم کے طور استعمال کیا۔یہاں کے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر آپکا ساتھ دیا۔ آزادی کشمیر کا بنیادی ایندھن یہیں سے فراہم ہوتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ منی پاکستان کہلانے والا یہ قصبہ بار بار بھارتی استعمار کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار ہوا۔ 1961 سے ہی آپ حکومت وقت کے تعذیب و عقوبت کا نشانہ اور جیلوں کی زینت بنتے رہے حق گوئی اور بیباکی کے جرم میں آپ کئی بارجیل کی زینت بنے، آپ نے ہمیشہ وقت کے نمرود اور فرعون کی آنکھ میں آنکھ ملا کر بات کی ہے یہی وجہ ہے کہ سید گیلانی کی جرات وہمت دیکھ کر وقت کے ایک کشمیری نزاد وزیراعظم مرحوم بحشی نے آپ کو خریدنے کی کوشش کی ، لیکن آپ نے اسے غیر مبہم الفاظ میں جواب دیتے ہوئے کہ( جسے تم خریدنا چاہتے ہو وہ پہلے ہی بک چکا ہے)۔ سید علی گیلانی ظاہری اور معنوی دونوں اعتبار سے ایک قدآور شخصیت ہیں ایک صاحب وقار انسان ہیں، عظمت اور بلندی ان سے عبارت ہے وہ اقبال کے مرد مومن کا ایک حسین اور دل آویز مرقع ہیں۔نگہ بلند، سخن دل نواز ، جاں پرسوزیہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے28اگست1962ء میں آپ کوپہلی بار گرفتار کیا گیا اس موقع پر آپ نے اعلان کیا کہ اگر حق کے لیے سو بار بھی گرفتار کیا جائے تو میں اس کے لیے تیار ہوں۔ سنٹرل جیل سرینگر سیل نمبر 3میں ڈال کر دروازہ مقفل کرنے والوں نے شاید سوچا ہو کہ حق کی آواز محبوس ہوگئی مگر انہیں کیا معلوم کہ سید گیلانی کیا ہیں وہ تو اس مکتب کے استاد ہیں جہاں انہوں اپنے جیسے لاکھوں شاہین صفت شاگرد تیار کئے، وہ تو میدان عمل کے ایک مجاہد ہیں، جہاں لاکھوں انکی ایک آواز پر اپنا سرجھکانے کے لیے تیار صرف اشارے کے منتظر ہیں ،انکے تیار کردہ شیدائی جیل کے باہر بھی بہت ہیں ،آپ زبان حال سے حکومت کو للکار رہے تھے۔زندان کے علاوہ بھی دیوانے بہت سےکس کس کو وہ پابستہ زنجیر کریں گےتیرہ ماہ کی طویل اسیری کے بعد آپ ایک پختہ کار سیاسی انسان بن کر ایک بار پھر میدان میں اترے، اس دوران آپ کے والد محترم بھی اس دارفانی سے کوچ کر گئے مگر حکومت وقت نے آپ کو انکے جنازے میں شرکت کرنے کی بھی اجازت نہ دی، مگر رہا ہوتے ہی آپ نے وادی کشمیر کے طول و عرض کا طوفانی دورہ کرکے عوام کو شیخ عبداللہ مرحوم اور بخشی غلام محمد مرحوم کی ریشہ دوانیوں سے آگاہ کیا۔ فرد جرم میں آپ پر جو الزامات لگائے گئے وہ ہمیشہ ایک ہی طرح کے رہے ہیں کبھی کہا گیا کہ آپ ملک دشمن ہیں ، کبھی کہا گیا کہ آپ کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے ، کبھی کہا گیا کہ آپ کشمیر کو ایک متنازع مسئلہ سمجھتے ہیں،کبھی یہ کہا گیا کہ آپ کشمیر میں استصواب رائے کرانے کے لیے لوگوں کو ابھارتے ہیں۔یہا ں پر نمونے کے لیے میں صرف چند ایک درج کرتا ہوں۔ ڈسٹرک مجسٹریت بارہ مولہ کی فائل میں لگی ہوئی ایف آئی آر کے مطابق سید علی گیلانی کے جرائم حسب ذیل ہیں٭ آپ جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کے رکن ہیں جو ایک قوم دشمن جماعت ہے، آپ پارٹی کے اہم اور سرگرم رکن ہیں جن کا مقصد ریاست جموں و کشمیر کے بھارت سے الحاق کو چیلنج کرنا ہے ۔آپ لوگوں اور قوم دشمن اور سماج دشمن عناصر کو تشدد کی ترغیب دیتے ہیں جس سے امن درہم برہم ہوتاہے۔آپ کے خلاف بہت سے کیس درج اور زیرسماعت ہیں۔ پھر بھی آپ قوم دشمن اور غیر قانونی حرکات سے باز نہیں آتے۔(ایف آئی آر سے) ٭ 6فروری 1985ء کو آپ نے اقبال مارکیٹ سوپور میں ایک جلسہ سے خطاب کیا جس میں آپ کو موٹر کار قوم دشمن حرکات تیز کرنے کے لیے بطور تحفہ پیش کی گئی۔ اس موقع پر آپ نے خطاب کرتے ہوئے اپنی پارٹی کی طرف سے ریاست جموں و کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے نئے عزم کا اظہار کیا ہے اس لیے آپ کی جماعت کوئی بھی حد پار کرسکتی ہے۔ لہذٰا آپ کے خلاف مقدمہ علت نمبر 51سال1985ء بجرائم 13،2یوایل ایکٹ تھانہ پولیس سوپور میں رجسٹر کیا گیا۔(ایف آئی آر) 8دسمبر 1984ء کی رہائی کے بعد سوپور میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے اپنی گرفتاری کو غیر قانونی بتایا اور کہا کہ کشمیر کا مسئلہ عوام کی مرضی سے حل ہونا چاہیے۔ آپ نے اس جلسے میں مقبول بٹ کو شہید کہا اور اس کی پھانسی کی مذمت کی ہے۔آپ نے اس بات کا اعلان کیا کہ آپ اور آپ کی جماعت کشمیر کی آزادی کے لیے زندگیاں نچھاور کرے گی۔ اس حق گوئی و بیباکی کے بعد درجنوں مقدمات جناب گیلانی پر قائم کئے گئے1985ء میں گرفتاری کے بعد رہا ہوکر آئے تو سرینگر میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے عزم کو دہرایاکہ بھارت نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو اقوام متحدہ میں تسلیم کرلیا ہے اور ہماری کوشش بھی یہی ہے کہ حق خودارادیت کے اس مسئلہ سے سیاسی انداز میں نمٹا جائے۔بھارتی حکمرانوں کا مفاد بھی اسی میں ہے لیکن اگر انہوں نے مزید ٹال مٹول سے کام لیا تو کشمیری کسی دوسرے راستے کا انتخاب کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔ 1975ء کشمیریوں کے لیے ایک اور دہچکا ثابت ہوا جس میں مرحوم شیخ محمد عبداللہ نے ایک رسوا کن معاہدے کے تحت کشمیری عوام کی قسمت کا سودا کرنے کی جسارت کی اور انتہائی گھٹیا اور شرمناک شرائط پر وزارت اعلٰی قبول کی، شیخ عبداللہ مرحوم کی اس گھٹیا حرکت پر سید علی گیلانی کا بلند آہنگ نعرہ مستانہ ایک بار بھر بلند ہوا۔ شیخ صاحب کو اس بات کا پورا یقین تھا کہ اگر گیلانی اسی طرح عوام کو للکارتے رہے، عوام کے سامنے انکے کارناموں کا تذکرہ کرتے رہے تو اس کے اقتدارکو خطرہ لاحق ہوسکتاہے۔ صورت حال کو اپنے حق میں بدلنے کے لیے مرحوم شیخ صاحب نے بھارت میں نافذشدہ ایمرجنسی کو کشمیر درآمد کیا اور اسی دوران ان تمام فرزانوں کو زندان کے حوالے کردیا جو انکی نظر میں انکے لیے خطرہ کی ایک علامت تھے۔ اس نے بزعم خود تحریک آزادی کے تمام رہنمائوں کو پس دیوار زندان ڈال کر کچل دیا تھا ، مگر کوئی دیوار زندان،کوئی زنجیر اور کوئی ہتھکڑی اس آواز کو ختم نہ کرسکی جو عوام کے دل کی ترجمان تھی۔حکومت کو اس بات کا احساس ہوگیا کہ جس شخص کو انہوں نے جیل میں ڈالا ہے وہ باہر سے زیادہ اندر خطرناک ثابت ہوا ہے چنانچہ ایک بار بھر انہیں رہا کردیا گیا۔ 1979مرحوم بھٹو کی پھانسی کے بعد اگرچہ پوری وادی میں دین پسند طبقے کے لیے ایک ابتلاء و آزمائش کا دور ثابت ہوا مگر جماعت اسلامی کے لیے یہ ایک خطرناک دور تھا انکی کروڑوں کی جائیدادیں تباہ و برباد کردی گئیں، لاکھوں کی عمارتین نذرآتش کردی گئیں،لیکن سید علی گیلانی اس وقت بھی بستی بستی اور قریہ قریہ جاکر عوام کے حوصلے بلند کرتے رہے کہ ان حالات سے دل برداشتہ یا پست ہمت ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور انہیں یقین دلایا کہ ان قربانیوں سے بہت جلد انقلاب کی صبح طلوع ہوگی۔ ظلم ڈھانے والے چاہے افراد ہوں یا حکومتیں انہیں شاید معلوم نہ ہو کہ ہر بوسیدہ نظام جو کھوکھلی قیادت کے سہارے چل رہا ہو اعلٰی اصول و مقاصد اخلاقی معیارات اور تہذیب سے محرم ہوتا ہے، وہ اصلاح اور تعمیر کے آگے ٹھہر نہیں سکتا۔انہوں نے جس قیادت کو ختم کرنا چاہاتھا آج وہ پوری قوت سے میدان میں کھڑی ہے۔سید علی گیلانی نے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا بلکہ جب اور جس وقت انہیں موقع ملا انہوں نے کشمیریوں کی ہر وقت وکالت کی ہے مجھے انکی وہ تقاریر اور خطبے یاد ہیں جو بلکل پرائیوٹ قسم کی ہوتی تھیں مگر ان کے آخر میں وہ ضرور اپنی مظلوم قوم کے حق میں اپنی آواز بلند کرنے کیلئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ ہونے دیتے تھے۔ اعلان جنگ مجھے پوری طرح یاد ہے کہ مئی 1980 جمعہ المبارک کا دن تھا اور میں سوپور کے ایک مقامی اسکول میں زیر تعلیم تھا اور آزادی کے حق میں آواز اٹھانے والوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارے تھے اسی دوران سوپور کا ایک نوجوان بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہوچکا تھا، معلوم ہوا کہ گیلانی صاحب حج کرکے واپس آگئے ہیں اور جامع مسجد سوپور میں انکا خطاب ہے، اللہ تعالی نے گیلانی صاحب کو ایک فصیح و بلیغ زبان دی ہے اور جب بولتے ہیں تو روانی کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے اختتام تک ایک ہی طرز میں اپنی تقریر ختم کردیتے ہیں‘ دور دراز سے لوگ آپ کی تقریر سننے کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔ اس تقریر کے الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں وہ کہہ رہے تھے ’’یہ ٹی وی، یہ مال و دولت، یہ سونا چاندی ، یہ باغات سب بیچ دو اور اس کے بدلے میں اپنے تحفظ اور آزادی کے لیے کچھ سامان حرب و ضرب خریدو، کیونکہ وقت ہمیشہ یکساں نہیں رہتا ہے‘‘۔ یہ دراصل کھلا اعلان تھا۔ وقت کے لیڈر نے عوام سے کہہ دیا تھا کہ وہ اب بیلٹ کے بجائے بلٹ پر انحصار کریں۔ حکومت وقت کی نظریں مسلسل سید علی گیلانی پر لگی ہوئی تھیں۔ چنانچہ انکی شعلہ نوائی اور باغیانہ انداز کو وہ کیسے برداشت کرلیتے۔ اسلئے ایک بار پھر گرفتار کرلیا گیا اور انہیں پاکستانی ایجنٹ قرار دے کر تعذیب کا نشانہ بنایا گیا۔رہائی کے فوراً بعد آپ نے سرینگر میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہا ’’تم مجھے سولی پر چڑھادو ، ہمارے گھر جلا دو ، لیکن کشمیر کا بھارت سے الحاق میں نہیں مانتا ، نہیں مانتا،،۔ 13اکتوبر1983ء کو آپ نے سرینگر میں جس تاریخی پریس کانفرنس سے خطاب کیا اس کے تذکرے کے بغیر بات مکمل نہیں ہوتی۔ آپ نے الیکشن پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا۔ ’الیکشن کشمیر عوام کا استصواب رائے کا نعم البدل نہیں ہوسکتے. ۔ یہ محض ایک انتظامی مسئلہ ہے ، جہاں تک عوام کے مستقبل کا تعلق ہے تو ایسا آج تک کبھی نہیں ہوا، اسلئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ریاست کے عوام سے پوری طرح پوچھا جائے ۔ اگر ہندوستان کو پسند کریں گے تو وہ بھی سارے جہاں کے سامنے آئیگا اور اگر بھارت کو کشمیریوں کے جذبات کی ایسی روش پر اعتماد ہے تو وہ استصواب رائے کے مطالبے سے کیوں سیخ پا ہوجاتا ہے‘۔ سید علی گیلانی نہ صرف کشمیریوں کی حقوق کیلئے جدجہد کیلئے سرگرم رہے بلکہ امت مسلمہ کا درد آپ کے دل میں ہمیشہ موجود تھا یہی وجہ ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورت حال پر وہ انتہائی رنجیدہ تھے امریکہ اور اسکے اتحادیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ صورت حال پوری ملت کیلئے بہت بڑا المیہ اور سانحہ ہے، ایک ارب سے زائد آبادی رکھنے اور دنیا کے ہر ملک میں آباد ہونے والی ملت ، عالمی سطح پر پیدا ہوجانے والی صورتحال میں کوئی مشترکہ موقف اختیار کرسکنے کے قابل نہ ہو اور دنیا کے دوسرے ممالک ان کو اپنے Dictation پر عمل کرنے پر مجبور کریں جبکہ ان کے پاس بے پناہ مادی اور افرادی قوت اور تیل اور معدنیات کی دولت ہے۔ اہم ترین جغرفیائی پوزشن اور حیثیت ہونے کے باوجود پھر بھی اپنا وزن محسوس نہ کرواسکے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سارے مسلم ممالک کی حکومتیں استعماری قوتوں کی دست نگر ہوکر رہ گئی ہیں‘ معاشی لحاظ سے کمزور اور بین الاقوامی اداروں کے قرض پر انحصار رکھتی ہیں۔ نظریاتی لحاظ سے اسلام کے ہدایت بخش نظام سے ذہناً اور عملاً کٹ کررہ گئے ہیں۔ باطل اور غیر اسلامی نظریات سے مرعوب ہوچکے ہیں۔ اکثرو بیشتر مسلم ممالک میں حکومتیں اپنے عوام کے جذبات اور احساسات کے علی الرغم چل رہی ہیں۔ وہ محض حکومتی ذرائع اور وسائل کی بنیاد پر عوام پر سوار ہیں۔ ان کے اور عوام کے درمیان کوئی ہم آہنگی اور یکجہتی نہیں ہے۔ == 9/11 ستمبر کے خونی واقعات کے بعد پیدا ہوجانے والی صورت حال نے امت مسلمہ کے اس زوال اور فکر و عمل کے انتشار کو اور زیادہ واضح کردیا ہے۔ آگے چل کر موصوف لکھتے ہیں کہ طاقت کا بے جا استعمال جیسے11 ستمبر کے واقعہ میں قابل مذمت اور خلاف انسانیت و اخلاق تھا۔ برابر اسی طرح 8 اکتوبر2001ء کے ہوئی حملوں کو بھی دہشت گردی کے بغیر کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی یکطرفہ کارروائی کی اگر پوری دنیا بھی حمایت کرے تو اس کی بنیاد پر اس کو جائز نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ افغانستان کے ضمن میں پاکستانی موقف اور عوام الناس کے جذبات کی جس طرح ترجمانی سید علی گیلانی کرتے رہے میرے خیال میں خود پاکستانی حکمران بھی اسطرح اپنے ملک کا دفاع کرنے سے معذور نظر آرہے تھے۔ سید علی گیلانی نے بہ بانگ دہل کہا کہ امریکہ پر انحصار رکھتے ہوئے اس مسئلے کے دائمی پائیدار حل کی امید رکھنا60 سالہ تجربات کی بنیاد پر خیال خام ہی قرار دیا جاسکتا ہے ۔ پاکستان نے SEATOاور cento میں امریکہ کا حلیف بن کر روسی استعمار کو اپنے خلاف کرلیا۔ اور اس نے VETO کا استعمال کرکے مسئلہ کشمیر کو جتنا نقصان پہنچایا ہے اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سویت یونین نے بھارت کے جابرانہ اور ظالمانہ قبضہ کو جس طرح Legetimacy عطا کردی ہے۔ امریکہ نے کبھی اس طرح کی جرات مندی کا اظہار کرکے پاکستان کے جائز اور مبنی بر صداقت موقف کی حمایت نہیں کی ہے بلکہ اس کو ہر مرحلے پر اپنی قومی ، معاشی اور سیاسی مفادات کا ہی خیال رہا۔ اس نے کبھی مسئلہ کشمیر کو تاریخی شواہد حق و صداقت اور جموں و کشمیر کے عوام کی غالب اکثریت کی عظیم اور بے مثال قربانیوں کی بنیاد پر اپنا اثررسوخ استعمال کرکے اس کے دائمی اور پائیدار حل میں مدد دینے کی کوشش نہیں کی ہے ۔ آج جب کہ وہ دہشت گردی کا بزعم خویش افغانستان کو مجرم قرار دے رہا ہے اور اس کو اپنی طاقت کا مزہ چکھا نے میں پاکستان کے شانوں پر سوار ہوکر تاراج کرنے کی کوششوں میں نہ صرف خود بلکہ پوری دنیا کو اپنی پشت پر کھڑا کردینا چاہتا ہے وہ کیسے چاہے گا کہ مسئلہ کشمیر اس کے تاریخی پس منظر کی روشنی میں حل ہوکر برصغیر ہندو پاک میں تعلقات استوار ہوجائیں، وہ تو اب بھی اس مسئلے کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتا رہیگا۔ پاکستان سے بھی اور بھارت سے بھی اس کے حوالے سے اپنے عزائم کی تکمیل چاہے گا۔ سید علی گیلانی کی دوراندیشی داد دینے کے قابل ہے انہوں اسی موقع پر کہا تھا کہ امریکہ افغانستان میں تربیتی کیمپ بند کروانے کا مطالبہ کررہا ہے اور اس کے نزدیک یہ دہشت گردی کی تربیت گاہیں ہیں۔کل کو امریکہ پاکستان سے کہے گا کہ جموں و کشمیر کے آزاد حصے میں آزادی کی سرگرمیاں ختم کردی جائیں ، کیونکہ وہ بھارت کو بھی راحت پہنچانا چاہتا ہے۔ اسلئے کہ بھارت اس کیلئے تجارت کی بہت بڑی منڈی ہے مسئلہ کشمیر حل کرنے کیلئے مسلح جدوجہد کو سدراہ قرار دیکر مذاکرات کے ذریعہ اس کو حل کروانے میں مدد کرنے کا وعدہ کریگا ۔ آج گیلانی صاحب کی یہ باتیں سچ ثابت ہورہی ہیں۔ سید علی گیلانی نہ صرف کشمیر بلکہ عالم اسلام کیلئے ایک دردمند دل رکھتے ہیں انہوں چچنیا، بوسنیا،فلسطین، سوڈان وغیرہ ان تمام مملک کے حق میں ہمیشہ اپنی آواز بلند کی جنہیں غیروں نے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا۔ الیکشن کے آخری معرکہ میں جناب گیلانی نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کیلئے اور کشمیریوں کو انکے حقوق دلوانے کیلئے ہر طرح کے طریقے اختیار کئے۔1987ء میں جب ایک بار پھر الیکشن کا بگل بجا تو آپ نے اپنی شبانہ روز محنتوں سے ریاست کی اسلام پسند جماعتوں اور تحریک آزادی سے متعلق گروپوں کو مسلم متحدہ محاذ کے پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ اس اتحاد نے بھارتی سامراج کی نیندیں اچاٹ کرکے رکھ دیں۔ جب بھارت پہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ مسلم متحدہ محاذ بھاری اکثریت سے جیت جائے گا۔ اس کی جیت کے نتیجہ میں کیا ہونے والا ہے‘ اس سوال کا جواب بھی بھارتی استعمار کو نوشتہ دیوار کی طرح سامنے نظر آرہا تھا۔ انتخابات ہوئے لیکن بھارت سرکار اور کٹھ پتلی انتظامیہ نے رسوائی سے بچنے کیلئے وہ شرمناک دھاندلی کی کہ شیطان بھی شرماکررہ گیا۔ نتائج کے اعلان سے قبل ہی محاذ کے تمام اہم رہنمائوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس کے باوجود بھارت کے حکمران عوامی جوش و جذبے اور زبردست قوت کی وجہ سے سید علی گیلانی کو نہ ہراسکی۔ صاف نظر آتا تھا کہ کشمیر میں ووٹ کے محاذ پر یہ آخری معرکہ تھا۔ اس کے بعد بلٹ کا دور شروع ہوگیا، سید علی گیلانی اس کے بعد پھر میدان میں آئے اور عوام الناس سے کہہ دیا کہ اب یہ دور ختم ہوچکا ہے ہم نے اسمبلی میں دیکھا، انتخابات اور پرامن ذرائع سے بھی ہم اپنی بات نہیں منواسکے۔ بیلٹ کا دور ختم ہوگیا۔ چونکہ نوجوان بھی بے قابو ہوچکے تھے ۔ عوام بھی بھارت اور کشمیری حکمران طبقے سے نالاں تھے۔ اس موقع پر سوپور میں ایک جم غفیر کے سامنے تقریر کرتے ہوئے آپ نے ملت اسلامیہ کشمیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ، آپ کب تک صابروں میں شمار ہوتے رہیں گے۔ یہ فلک بوس سینما ہال، یہ عریاں رقص و سرود کی محفلیں، تمہاری تہذیب و روایات تم سے چھینی جارہی ہیں۔ نوجوانوں کی روح کس نے قبض کرلی ہے۔ تمہیں کب تک اپنی کرسیوں کیلئے گولیاں کھانے اور قربانیاں دینے کیلئے چارے کے طور پر استعمال کیا جائے گا؟ کیا آپ میں مومنانہ بے تیغ لڑے کا جذبہ اور عزم ختم ہوگیا ہے۔ یاد رکھیے کہ’’ غلامی کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے کہ آدمی آزادی اور اسلام کی خاطر ایک دن کی زندگی قبول کرے،،۔ آپ نے ایک طرف تو کشمیری نوجوانوں کو مزاحمت کیلئے تیار کیا اور جدوجہد میں مصروف تنظیموں کو باہم متحد کرکے بھارت کے خلاف کھڑا کردیا۔ دوسری جانب جدو جہد کی حمایت اور سیاسی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کیلئے تحریک حریت کشمیر کے نام سے ایک اتحاد کو منظم کیا۔ مگر تھوڑے عرصہ کے بعد ہی اتحاد کی پوری قیادت کو حوالہ زندان کردیا گیا اور حکومت وقت نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ اس نومولود اتحادکو بکھیرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، جس کی بنا پر یہ نومولود اتحاد زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ اس کے بعد جیل کے اندر ایک اور اتحاد قائم ہوا جو کہ حریت کانفرنس کے نام سے کشمیر کی سرزمین اپنی جڑیں مضبوط کرتا رہا مگر دشمنوں نے اس اتحاد سے بھی خوف کھایا اور یہ بھی پارہ پارہ ہوگیا۔ گویا سید گیلانی نے راہ حق میں عمر قید سے بھی زیادہ مدت جیل کی بلند و بالا اور آہنی زنجیروں اور کنکریٹ دیواروں کے پیچھے گزار دی۔ بار بار آپ کو نعرہ حق ، حق خودارادیت سے باز رہنے کیلئے مختلف قسم کی پیش کش بھی کی گئیں‘ مگر آپ نے ان تمام ترغیبات کو حقارت ٹھکرا دیا اور فرمایا، میں کوئی شیخ عبداللہ نہیں جو بک جائوں۔ آج اس پیرانہ سالی میں بھی سید علی گیلانی کا نام مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تسلط کے خلاف تحریک مزاحمت کی علامت کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف دوست اور دشمن دونوں کرتے ہیں۔ریاست جموں و کشمیر کی حدتک شیخ محمد عبداللہ مرحوم کے بعد اگر کوئی فردا اٹھا تو وہ سید گیلانی ہی ہیں جن کے عزم و ہمت کو کوئی توڑ نہ سکا۔ یہ الگ بات ہے کہ لوگوں نے انکو نہ پہچانا بلکہ انہیں اپنوں کے طنز و تیروں کا نشانہ بننا پڑا۔ گیلانی صاحب کی بہت سی باتوں سے اختلاف ممکن ہے۔ مگر انکی استقامت اور پامردی قابل داد ہے۔ وہ مشرف کے تیار کردہ فارمولے کو مسئلہ کشمیر کا کوئی پائیدار حل تصور نہیں کرتے ۔غالبا وہ یہ سوچتے ہیں کہ اس طرح سے مسئلہ کشمیر کا کوئی پائیدار حل بھی ممکن نہیں‘ بلکہ اس سے ہمارا کیس مزید کمزور ہوگا اور ہم ایک ہزار سال پیچھے چلے جائیں گے۔ آپ نے بھارتی سامراج کے خون آشام اور جبری ہتھکنڈوں کے خلاف مزاحمت کے دوران جس جرات و بے باکی اور عزیمت و استقامت کے انمٹ اور درخشاں نقوش چھوڑے ہیں وہ نہ صرف کشمیر کی تاریخ کا حصہ ہے بلکہ حریت پسندی کی پوری تاریخ کا ایک ناقابل فراموش باب ہے۔ برصغیر کی تاریخ مرتب کرنے والوں کیلئے اس نابغہ روزگار شخصیت کا اپنی شہ سرخیوں میں جگہ دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔ موصوف جیل کے اندر بھی اپنی قوم اور وطن کی آزادی کیلئے لڑتے رہے اور مسلسل اپنے قلم سے اپنی جدوجہدد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کشمیر کے ضمن میں انہوں نے کئی کتابیں تحریر کی ہیں۔ جن میں قصہ درد اور انکی آپ بیتی ولر کنار کے تین حصے قدرے مشہور ہیں۔ آج جبکہ وہ انتہائی علیل ہیں۔ انہوں نے پوری قوم کو یہ پیغام دیا کہ ’’ میں جانتا ہوں کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے چھٹکارا ممکن نہیں ۔ مگر میں نے اپنی زندگی مسئلہ کشمیر کیلئے تج دی ہے ‘‘
"Those who have got tired or disillusioned with the struggle should not mislead others and instead sit back. God willing our caravan will reach its destination, Today I once again declare loud and clear that I am committed to my goal and struggle. I have devoted my whole life for Islam, unity of nation and freedom of Kashmir. I have passed through the worst trials and tribulations, but arrests and tortures cannot deter me from pursuing the noble mission." ۔
بہر کیف ایسے افراد قوموں اور ملتوں کا سرمایہ ہوتے ہیں جن کی قدردانی انکے چلے جانے کے بعد ہی کی جاتی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ سید علی گیلانی اس صدی کے ایک ایسے ہیرو ہیں جو بار بار پیدا نہیں ہوتے ہیں۔ انکا صرف یہ جرم ہے کہ وہ ایک اسلام پسند تحریک سے وابستہ ہیں اور وہ ایک مظلوم و مقہور قوم کے حقوق کے لیے میدان عمل میں سرگرم ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت کاملہ سے نوازے اور انکا خواب شرندہ تعبیر ہو۔ 
تازہ ترین