• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کل ایک ٹرک کے پیچھے لکھا شعر دیکھا تواپنے حکمران بے طرح یادآئے! بر وزن یا بے وزن شعر کچھ یوں تھا:
جوش جوانی ہے، ذرا جھوم کے چلتے ہیں
لوگ سمجھتے ہیں، ڈرائیور کچھ پی کے چلتے ہیں
وطن عزیز میں بھی حکومت ملی، ٹرک ڈرائیوروں کی طرح وہ بھی جھومتا جھامتا ہی چلتا رہا۔ فوجی، غیرفوجی، سویلین، بلڈی سویلین… سب آئے۔ چنگیز خان کی طرح گھوڑے پر سوار ہوئے، تلوار لہرائی اورحکم دیا ”یلغار ہو“ لشکریوں نے جو سامنے آیا لوٹنا شروع کردیا۔ پہلے بستیاں تاراج ہوتی تھیں اب ادارے تباہ ہوتے ہیں، پہلے تلواریں گلے کاٹتی تھیں اب مہنگائی، غربت اور بیروزگاری جانیں لیتی ہیں۔ ان چنگیزخانی لشکروں کی یلغاراس وقت تک جاری رہی جب تک مستی میں سرپٹ بھاگتے لشکرسمیت کسی کھائی میں نہ جاگرے… موجودہ حکمران اور ان کے لشکری بھی گرد کا طوفان اڑاتے، گھوڑے دوڑا رہے ہیں… سامنے الیکشن کمیشن کی کھائی منہ کھولے کھڑی ہے… گھوڑے رک نہیں سکتے اس لئے بھاگتے رہنا ضروری ہے… کھائی میں گرنا بھی لازم ہے…
ظہیر الدین بابر کے لاڈلے سپوت مغل بادشاہ ہمایوں نے جب ایک زیرک پٹھان شیرشاہ سوری سے شکست کھائی تو اپنے لشکریوں پر لعنت بھیج کر اکیلا ہی جان بچانے کے لئے بھاگا۔ رستے میں دریا پڑتاتھا۔ پانی میں کود گیا۔ تیرنا آتا نہیں تھا۔ غوطے کھارہا تھا کہ ایک سقے نے جس کا نام نظام تھااپنی مشک پر بادشاہ کو لاد کر دریا کے پاراتارا۔ ہمایوں ایران بھاگ گیا۔ دیر بعد اس وقت کے ایرانی حکمران شاہ عباس نے اپنا لشکر بھیج کر ہمایوں کو پھر سے ہندوستان کی حکومت دلائی۔ ہمایوں پھر سے بادشاہ بن گیا تو نظام سقہ جس نے بادشاہ کی جان بچائی تھی دربار میں حاضر ہوا اور بادشاہ سے اپنی خدمت کا صلہ مانگا۔ ہمایوں نے اسے ایک دن کی بادشاہت بخش دی۔ جب ”کمی کمین“ بادشاہ بن جائے تووہ کام بھی ویسے ہی کرتا ہے۔ اپنی ایک دن کی بادشاہی میں سقے نے حکم دیا دیا کہ سونے چاندی کے سکے منسوخ چمڑے کے سکے بنائے اور چلائے جائیں۔ حکم تو جاری ہوگیا مگر بادشاہت کا ”ٹائم“ بہت جلد ختم ہوگیا۔ دن ڈھلا توبادشاہ نے پھرسے مشک اٹھائی اورسفرگیری شروع کردی! چمڑے کے سکے غائب اورسونے کے سکے بحال ہوگئے!
ہمارے ”بچہ سقہ“ وزیراعظم جناب راجہ پرویز اشرف بھی آج کل چمڑے کے سکے چلا رہے ہیں!
تازہ ترین اطلاع کے مطابق وزیراعظم پرویز اشرف (جبکہ ان کی رخصتی میں محض دو دن باقی ہیں) نے پانچ ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز سرکاری خزانے سے نکلوانے کا حکم دے دیا ہے! یہ فنڈ آڈیٹرجنرل آف پاکستان نے روک رکھے تھے کہ پہلے الیکشن کمیشن کی طرف سے NOC لائیں پھر فنڈ جاری ہوں گے۔ وزیراعظم کے نئے حکم کے مطابق اب الیکشن کمیشن کا NOC ضروری نہیں ہوگا۔ یہ معاملہ بہرحال عدالتوں اور الیکشن کمیشن میں جائے گا۔ مگر یہ بتایئے کہ اپنے اقتدار کے آخری دو دنوں میں ہمارے بچہ سقہ وزیراعظم یہ 5ارب روپے کس طرح استعمال کریں گے؟
اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں راجہ پرویز اشرف نے برطانیہ کا ”سرکاری“ دورہ کیا اور لندن میں ڈیڑھ کروڑ روپیہ خرچ کرکے کہا کہ میں نے تونیلی جرابوں کا ایک جوڑا خریدا ہے!ہے نا یہ نظام سقے والی بات!
چند روز قبل وہ اپنے خاندان کے ہمراہ سرکاری طیارے ”ایئرفورس ون“ پر اجمیر یاترا کو گئے۔ 35 کلو وزنی کامدارچادر سرپر اٹھا کر خواجہ غریب نواز کے مزار پر گئے اور دعائیں مانگیں… ان دعاؤں کے ثواب پر تو راجہ صاحب کا پورا حق ہے مگر اس بدقسمت قوم کو یہ تو بتائیں کہ ”دعاؤں“ اور ”التجاؤں“ کے اس پروگرام پر سرکاری خزانے سے کتنا خرچ آیا؟
رخصتی میں چند دن باقی ہیں اوروزیراعظم اسلام آباد کے پلاٹ ”اندھے کی ریوڑیوں“کی طرح بانٹ رہے ہیں۔ پہلے 100 پلاٹ گریڈ 22کے ”بڈھوں“ میں بانٹ دیئے اور اب جاتے جاتے 8پلاٹ اپنے فوجی سٹاف کوبھی دے دیئے کہ سویلین بھی خوش، فوج والے بھی راضی، رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔
راجہ صاحب نے اپنے ایک داماد کوورلڈ بنک میں اعلیٰ نوکری پرورلڈ بنک میں بھجوا دیا۔ دوسرے کو ایک غیرملکی انویسٹمنٹ کمپنی میں کھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
قانون سازی کے نام پر قومی اسمبلی میں ”ٹوکہ“چل رہا ہے۔ دھڑا دھڑ بل منظورہو رہے ہیں کوئی کسی یونیورسٹی اور کوئی کسی ہاؤسنگ اتھارٹی کامگر جس بل کی لوگوں کو ضرورت ہے وہ کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک زیرالتواہے۔یہ بل ہے دہشت گردی کے خلاف قومی پالیسی کا… جس کو منظورکرنے کی راجہ صاحب شاید ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اس لئے شاید اس میں چمڑے کے سکے چلنے کی امید نہیں۔
یارو… اتنی کہانیاں ہیں کہ کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤ مگر جوکچھ آج کل ہو رہاہے یقین مانئے یہ چمڑے کے سکے ہی ہیں جو کبھی نظام سقے نے بھی چلائے تھے ادھر سورج ڈوبا، بادشاہت گئی، لوگ چمڑے کے سکے، انہیں چلانے والوں کے منہ پر ماریں گے۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین آصف زرداری اور نظام سقہ وزیراعظم بہت کریڈٹ لے رہے ہیں کہ ہم نے امریکی پریشر کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پائپ لائن کے معاہدے پر دستخط کردیئے ہیں۔ یہ دستخط اس ”بابے“ کی جوانی کی طرح ہیں جو ٹھوکر کھاکر گرا، چوٹ لگی، سنبھلا، گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھا تو بولا:”ہائے او جوانی کدھر گئی؟“ادھر ادھر دیکھا تو کوئی نہیں تھا جس نے سے گرتے ہوئے دیکھا ہو، پھر خود سے مخاطب ہو کر بولا۔”جوانی میں تو نے کون سے تارے توڑ لئے تھے جو آج جوانی کو رو رہا ہے!“تو بھیا… پانچ سال لوگوں کی لوڈشیڈنگ اور توانائی کے بحران کے باعث چیخیں نکل گئیں، چولہے ٹھنڈے،کارخانے بند، مزدور بیروزگار… آج حکومت ختم ہوئی تو آپ کو پائپ لائن یاد آگئی ! ابھی توآپ نے معاہدے پر دستخط کئے ہیں ایران پاکستان کے جھنڈوں والے دو پائپ ویلڈکئے ہیں، ابھی تو اس راہ میں ہمالیہ جتنی کٹھنائیاں ہیں۔ آپ پائپ لائن پرکام شروع کریں، دیکھیں کیسی پھلجھڑیاں چھوٹتی ہیں۔ وہ ملک جس کے پاس زرمبادلہ کے ذخائرصرف دو ماہ کی درآمدات کے لئے ہوں، ملک میں کوئی ٹیکس نہ دیتاہو، باہر سے کوئی پیسہ نہ پکڑاتاہو… وہ بیرونی دباؤ کی کتنی مزاحمت کر پائے گا… ایک جھٹکا تو کراچی سٹاک مارکیٹ کو اسی دن لگ گیا ادھر دستخط ہوئے ادھرمارکیٹ 400پوائنٹ نیچے آگئی۔ آپ چاہتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت 1000روپے کے برابر ہوجائے توبسم اللہ پائپ لائن کی ویلڈنگ شروع کریں!!ایسے میگا پراجیکٹ خفیہ سفارتکاری اور دوروں کے ذریعے نہیں بنائے جاتے۔ ایسے منصوبوں پر ملک کے اندر منظم طریقے سے Debateکرائی جاتی ہے! رائے عامہ تشکیل کی جاتی ہے! دنیاکو رائے عامہ کے ذریعے پیغام پہنچایاجاتا ہے پھرعوام کی رائے اور ان کے دیئے گئے اخلاقی Mandate کی بنیاد پرایسے منصوبے شروع کئے جاتے ہیں تاکہ کل کو مشکلات پیش آئیں تو سب انہیں حوصلے کے ساتھ احتجاج کئے بغیر برداشت کریں!! مگر گیس پائپ لائن ہو یا بینظیر انکم پروگرام، سپریم کورٹ ہو یاالیکشن کمیشن… صدرزرداری اور ان کے وزیراعظموں نے ریاست، حکومت، سیاست، جمہوریت اورسفارت… سب کو ہرنام سنگھ ڈرائیورکی بس کی طرح ہی چلایا ہے!ہرنام سنگھ بس ڈرائیور تھا۔ حادثہ ہوا۔ بس کھائی میں جاگری۔ بے شمار لوگ مرگئے۔ تفتیش شروع ہوئی تو حکام نے ہرنام سنگھ ڈرائیورکو بلایااور پوچھا کہ بتاؤ تمہاری بس کو حادثہ کیسے پیش آیا؟ ہرنام سنگھ نے جواب دیا …”سرجی… مجھے معلوم نہیں؟“تفتیشی بہت حیران ہوئے اور کہا”تم بس کے ڈرائیور تھے اور تمہیں ہی نہیں معلوم؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟“ہرنام سنگھ نے جواب دیا ”سرجی… واقعی ایساہے میں ڈرائیور ضرور ہوں مگرحادثے والے دن میری بس کا کنڈیکٹرگورنام سنگھ چھٹی پر تھا۔ بس چل رہی تھی اور میں پیچھے مسافروں سے ٹکٹوں کے پیسے وصول کررہا تھا کہ حادثہ ہوگیا! اب مجھے کیاپتہ کیسے ہوا؟“تو صاحبو… ان حکمرانوں نے پاکستان کو ہرنام سنگھ کی بس بنا دیا ہے۔ وصولیاں جاری ہیں، حادثہ بھی ہوسکتا ہے بس دعا کریں کہ جلدی جلدی دن ڈھلے اور نظام سقے کی ایک دن کی بادشاہت ختم ہو!!
تازہ ترین