• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جس روز وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے پٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافے کے فیصلے کو واپس لینے کا حکم جاری کیا تھا۔ اسی روز میڈیا کے انتخابی مزاج کے مطابق سرخی جمائی گئی کہ”موجود حکومت نے جاتے جاتے عوام کو مہنگائی کا ایک اور بم ماردیا“۔ اس پر خیال آیا کہ یار لوگوں کو شاید یہ اندازہ نہیں ہے کہ ”اگلی حکومت مہنگائی کے باب میں”آتے آتے“ کیا گل کھلائے گی؟“۔
ہر باشعور پاکستانی جانتا ہے کہ موجودہ سسٹم یعنی سرمایہ داری نظام کے اندر رہتے ہوئے اگر کسی فرشتے کو بھی معیشت کے تقاضے پورے کرنے پڑیں گے تو وہ بھی”اشد ضروری“ ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اضافے سے گریز نہیں کرسکے گا جن”اشد ضروری“ ضروریات زندگی میں سرفہرست پٹرول ہے جس کے بغیر کوئی پتا بھی اپنی جگہ سے نہیں ہل سکتا۔ دوسرے الفاظ میں اگر کاروباری لوگ حکومت کا ٹیکس ،واپڈا کی چوری اور بینکوں کے قرضے چرائے بغیر”کامیابی“کا منہ نہیں دیکھ سکتے تو ہماری حکومتیں بھی موجودہ نظام کے تحت عوام کی ضرورتوں اور لوگوں کی خواہشوں کا استحصال کئے بغیر”کامیاب“ نہیں ہوسکتیں یعنی ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے تقاضے پورے نہیں کرسکتیں، چنانچہ کچھ بعید نہیں بلکہ عین ممکن ہے کہ عام انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی حکومت کو بھی ”آتے آتے“ وہی کچھ کرنا پڑے گا جو موجودہ حکومت ”جاتے جاتے“ کرنے پر مجبور ہے، ورنہ وہ اپنے”ہنی مون“ کے عرصے سے بھی محروم ہوسکتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ جتنی بڑی توقعات پیدا کی جاتی ہیں اتنی ہی بڑی مایوسیوں کے اندیشے بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔موجودہ حزب اختلاف سیاست بازی کے لئے جو زبان اختیار کررہی ہوگی وہی زبان خود اس کی حکومت کے خلاف بھی استعمال میں لائی جائے گی جو کرپشن اور بددیانتی آج مجھے دوسروں میں دکھائی دے رہی ہے وہی کل دیکھنے والے میرے اندر بھی دیکھ سکیں گے جو سلوک میں آج دوسروں کے ساتھ کررہا ہوں وہ کل میرے خلاف بھی استعمال ہوگا۔ سیاست کو گالیاں دینے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی سیاست ہی کررہے ہیں۔ دہشتگردوں کے خلاف احتجاج کرنے والے یہ کیوں نہیں دیکھ سکتے کہ وہ دہشتگردی کے لئے استعمال ہونے والی ا پنی جیکٹ کو چھپانے میں کامیاب نہیں ہورہے ؟”نظریہ پاکستان“ کے محافظوں اور تحریک کارکنان پاکستان کے ترجمانوں کا دعویٰ ہے کہ ان کانظریہ پاکستان اور خاص طور پر قرارداد مقاصد پاکستان کی تمام اقلیتوں کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ جماعت اسلامی کے زیر اہتمام جوزف کالونی کے المیہ کے موضوع پر مذہبی جماعتوں کے ایک اجتماع میں منگل کے روز عیسائی کمیونٹی کے ساتھ مکمل اتحاد اور بھرپور ہمدردی کا اظہار کیا گیا۔ پوچھا جاسکتا ہے کہ نظریہ پاکستان کے محافظوں سے نظریہ پاکستان اور قرار داد مقاصد میں اگر تمام اقلیتوں کے تحفظ کی ضمانت موجود ہے تو یہ ضمانت پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیوں نہیں کرتی؟ کیا ان کے اس”نظریہ پاکستان“ میں قائد اعظم محمد علی جناح کا گیارہ اگست 1947ء کو قانون ساز اسمبلی میں بیان کیا گیا”نظریہ پاکستان“ شامل نہیں ہے ؟اگر نہیں ہے تو کیوں نہیں ہے؟ عیسائی کمیونٹی کے ساتھ پیش آنے والے المیہ کے خلاف اس کمیونٹی سے اظہار ہمدردی کرنے والوں سے بھی شاید یہ پوچھا جاسکتا ہوگا کہ ان کا فائر بریگیڈ آگ بجھانے کے ہمیشہ تیسرے دن بعد ہی کیوں حرکت میں آتا ہے؟
تازہ ترین