• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت عرصے بعد اچھی خبر آئی ہے۔ اسکولوں یا مدرسوں میں استاد کے ہاتھوں بچوں کو جسمانی سزا دینا خلاف قانون قرار دے دیا گیا ہے۔

اب اگر کوئی ٹیچر کسی بچے کو مارے گا تو سزا پائے گا۔اس موقع پر میں ایک بات کی نشان دہی کرنا چاہتا ہوں۔ یہی قانون اگر پچاس سال پہلے بنا ہوتا تو میں چپ رہتا۔نہ اختلاف کرتا اور نہ احتجاج۔

تو پھر آج کیا ہوگیا جو میں بچوں کو سزا دینے کا اتنا بڑا مخالف ہوگیا ہوں۔ سنئے آج کا مسئلہ کیا ہے۔آج جو نسل پیدا ہورہی ہے، آج مائیں جو بچے جن رہی ہیں، وہ پہلے والے بچوں سے زیادہ فطری ذہانت لے کر پیدا ہورہے ہیں۔

آج کے بچے پہلے والے بچوں سے زیادہ ہوش مند، ذہین اور معاملہ فہم ہیں۔یہ بات طے ہے، کوئی مانے یا نہ مانے۔ بچے کی فطری ذہانت کی پیمائش کرنے کا ایک عالمی نظام ہے جس میں اس ذہانت کو آئی کیو کہا جاتا ہے۔

اس نظام میں اس ذہانت کی پیمائش کی جاتی ہے جو بچہ شکم مادر سے لے کر اس دنیا میں وارد ہوتا ہے۔اب ہوا کیا ہے۔ و ہ شخص جو مارے باندھے یا طرح طرح کے جتن کرکے تعلیم پاکر جیسے تیسے ٹیچر کی ملازمت حاصل کرتا ہے، اس کا آئی کیو، سامنے بیٹھے ہوئے کمسن بچے کے آئی کیو سے کم نہیں، بہت کم ہوتا ہے۔آج کے بچے بہت عقل مند پیدا ہو رہے ہیں۔

اور جب استاد اور شاگرد کی فطری ذہانت میں اس غضب کا فرق ہوگا تو جذباتی او رنفسیاتی، ہر طرح کے مسئلے پیدا ہوں گے۔یہ ایک ایسی اونچ نیچ ہوگی جس میں کوئی ایک فریق احساس کمتری کا شکار ہوجائے تو وہ دوسرے کے خلاف تشدد پر اتر سکتا ہے۔

اب ایک دل چسپ واقعہ سناتا ہوں۔ میں پچھلے دنوں سندھ کے ضلع ڈاہرکی میں دریا کے اس علاقے میں گیا جسے کچے کا علاقہ کہا جاتا ہے۔اس علاقے میں کچھ عرصہ پہلے تک ڈاکوؤں کا راج تھا۔ پولیس وہا ں جاتے ہوئے ڈرتی تھی۔ بہر حال کچھ ایسا ہوا کہ ڈاکو مارے گئے یا نکالے گئے اور قدرت کا کمال دیکھئے کہ وہاں جگہ جگہ بچوں کے اسکول کھل گئے۔

میں ان ہی اسکولوں کو دیکھ رہا تھا اور ہر جگہ جماعتوں میں جاکر بچوں سے باتیں کر رہا تھا۔ ایک کلاس روم میں جاکر میں نے بچوں سے پوچھا کہ یہ کون سی کلاس ہے، سب نے بیک آواز کہا: تیسری۔ اس پر میں نے بچوں کو بتایا کہ سنہ چوالیس میں مجھے تیسری کلاس میں داخلے کے امتحان میں بٹھایا گیا۔ پہلا سوال یہ تھا کہ بیس میں پانچ کتنی مرتبہ شامل ہے۔

میں نے اپنی بڑی سی گردن ہلا کر کہا کہ مجھے پتہ نہیں۔ یہ سن کر بچے ہنسے۔ میں نے سب سے زیادہ ہنسنے والی لڑکی سے پوچھا کہ تم بتاؤ بیس میں پانچ کتنی مرتبہ شامل ہے۔ لڑکی نے ایک لمحہ کی بھی دیر نہیں لگائی اور جھٹ بولی’ چار مرتبہ‘۔

یہ تھا سنہ انیس سو چوالیس اور سنہ دو ہزار انیس کے بچوں کی ذہانت کا فرق۔مگر میرا جی نہیںچاہا کہ کسی بہانے بچی کے کان کھینچوں۔ میں اور میری عمر کے تمام ہی لوگ میری اس بات کی فوراً ہی تائید کریں گے کہ آج کے برقی آلات اور کمپیوٹر سے ملتے جلتے ہر آلے کو بچے جس آسانی، سہولت اور مہارت سے چلاتے ہیں ، ہم پرانے لوگ نہیں چلاسکتے۔

ایک مرتبہ پاکستان سے ایک بزرگ کا تحریری خط آیا، جس کا آپ تسلیم کریں گے کہ اب رواج ہی نہیں رہا۔بڑی خوشی ہوئی اور میں نے طے کیا کہ میں بھی تحریری جواب لکھوں گا۔وہ جب لکھا گیا تو میں نے کہا کہ اب کون ڈاک خانے جائے، اسے لفافے میں بند کرے،

اس پر ٹکٹ چپکائے اور لیٹر بکس میں ڈالے، میں نے اپنے تحریری خط کو اسکین کیا ( اس لفظ کو اگر آپ سمجھ نہیں پائے تو گھر کے کسی بچے سے پوچھ لیجئے)اور ایک بٹن دبا کر ایک لمحے میں وہ خط پاکستان بھیج دیا۔ کچھ دیر بعد بزرگ کا جواب آیا کہ آپ کا برقی خط میرے ہا ں آتو گیا ہے لیکن مجھ سے کھل نہیں رہا ہے۔

شام تک بچے آئیں گے تو وہ خط کو کھولیں گے۔یہ تو محض ایک مثال ہے۔ ایسے قصے ہمارے ہاں ہر روز ہوتے ہیں۔ ہمارا یہ سارا نظام کہیں اٹک جائے تو نواسیاں آکر ہمارا مسئلہ حل کرتی ہیں او ر رکا ہوا کام آگے بڑھتا ہے۔

میں پھر آتا ہوں اپنے اصل استدلال کی طرف۔آج کے استاد اور شاگرد کی فطری ذہانت کی سطح میں بھاری فرق ہے جس کے نتیجے میں استاد پر برہمی کے دورے پڑتے ہیں اور اس کا ساراغضب کمسن بچے پر اتارا جاتا ہے۔

ان ادھر اُدھر کے اسکولوں میں جاکر دیکھئے تو یہ استاد دیکھنے میں بھی استاد نہیں لگتے۔ایک شاندار اسکول کی استانیوں نے مجھے بتایا کہ عجیب بات ہے کہ اردو کی استانیاں اپنی وضع قطع کا خیال نہیں رکھتیں اور ان کے ساتھ بچوں کا رویہ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ یعنی کھل کر صاف صاف بات کہتے ہوئے انہیں مناسب لفظ نہیں ملے۔

میرا اگلا استدلال بھی سن لیجئے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، مجھے سو فی صد یقین ہے کہ بچوں کو مارنے، دھکے دینے، پیٹنے، الٹا لٹکانے والے استاد اپنی ذاتی نفسیاتی الجھنوں کے شکار ہوتے ہیں۔

آسودہ نہیں ہوتے، ان کی شخصیت میں کہیں کوئی کمی ہوتی ہے، وہ شدید احساس محرومی کا شکار ہوتے ہیں، ان کے گھروں میں کشید گی ہوتی ہے اور وہ اپنی خانگی الجھنوں کو گھر پر چھوڑ کر نہیں آتے۔ بس اس کے بعد ان کا سارا عذاب بچوں پر زد و کوب کی شکل میں نازل ہوتا ہے۔

ہم آئے دن یہ لفظ سنتے ہیں کہ فلاں چیز وائرل ہوگئی، فلاں منظر وائرل ہوگیا، اسی سلسلے میں ہم نے کتنی ہی وڈیوز وائرل ہوتے دیکھیں جن میں استاد بچوں کی چمڑی ادھیڑ رہا تھا ، انہیں الٹا لٹکا رہا تھااور ایک منظر تو یہ دیکھا کہ اس نام نہاد استاد نے چار بچوں کو پہلے مرغا بنایا، پھر بچوں کی پشت پر جاکر ایک ایک کو لات مار کر انہیں خاک پر گرایا۔

یہ وہ استاد ہیں جن سے کبھی کوئی پوچھ کر دیکھے کہ بیس میں پانچ کتنی مرتبہ شامل ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین