• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

’جعلی ادویات‘ سیکڑوں دوائیں، فارمولوں کی منظوری کے بغیر فروخت ہورہی ہیں

ذرائع ابلاغ اور عدالت عظمیٰ ملک کے پریشان حال اوربے سہارا عوام کی امیدوںکی آخری کرن ہیں۔بااثر یاطبقہ اشرافیہ اس ملک کوبری طرح لوٹ رہا ہےاور ہر ادارہ بدعنوانی کا شکارہے۔ ملک کے دو ستون ،عدلیہ اور میڈیا ، کرپشن اور کرپٹ عناصر کی راہ میں رکاوٹ بنےہوئے ہیں ۔ حالانکہ موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں پر بھی حکومت کی جانب سےعرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ اخبارات اور الیکٹرونک چینلز میں ایسے حالات پیدا کردیئے گئے ہیں کہ وہاں سے اب تک ہزاروں کی تعداد میں صحافیوں اور کارکنان سے روزگار چھین لیا گیا ہے جس کی وجہ سے بچے کھچے صحافی خوف و ہراس کے عالم میں کام کررہے ہیں۔ اس کے باوجود وہ کرپٹ مافیا کے خلاف جنگ میں عوام کی بھر پور معاونت کرتے ہیں۔ 

اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں پختہ یقین ہوتا ہے کہ نیکی اور بدی کی جاری جنگ میں فتح بالآخر نیکوکاروں کی ہی ہوتی ہے،لیکن اس کے لیے طویل جدوجہد کرنا پڑتی ہے، کیوں کہ کرپشن کی جڑیں، کینسر کی طرح ہر ادارے میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس وقت سب سے پریشان کن مسئلہ ڈرگ مافیایا جعلی ادویات بنانے والی کمپنیوں کا ہے جن کے آگے حکومتی ادارے بے بسی کا شکار ہیں۔ڈاکٹروں اور اسپتالوں کی جانب سے مریضوں کے لیے تجویز کی جانے والی ادویات ،بجائے بیماری دور کرنے کے ان کی صحت پر مضر اثرات مرتب کرتی ہیں اور بعض کیسز میں مریض جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ سندھ سمیت ملک کےمختلف علاقوں کے لاکھوں افراد ناقص ادویات کے استعمال کی وجہ سے مختلف النوع بیماریوں کا شکار ہوگئے ہیں۔

چند سال قبل جعلی ادویات بنانے والی ایک کمپنی کے خلاف وزارت صحت اور ڈریپ کے سربراہ نے عدالت عظمیٰ کے، ایچ آر سیل میں درخواست دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ادویات بنانے والی ایک کمپنی مضر صحت ادویات تیارکرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا اس کے مالکان اتنی طاقت ور حیثیت کے مالک ہیں کہ وزارت صحت کا کوئی بھی افسربھی ان کی کمپنی نہیں جاسکتا۔ہم نے انہیں ان کے مذموم کاروبار کے خلاف نوٹس جاری کیے جس کےجواب میں مذکورہ کمپنی نے، ہم پر 30 سے زائد مقدمات دائر کردیئے ہیں۔سی ای او ڈریپ نےاس موقع پر بتایاتھا کہ اسلام آبادکی اس کمپنی کے تیار کردہ فارمولوں کی دنیا میں کہیں بھی منظوری نہیں دی گئی ہے ۔

ڈریپ کی طرف سے شکایات کے باوجود حکومتی سطح پرجعلی ادویہ کے کاروبار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور یہ آج بھی آزادانہ طور پر جاری ہے کیوں کہ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس کاروبار کی پشت پرمبینہ طور پر بااثر حکومتی و سیاسی شخصیات موجود ہیں۔مندرجہ بالا سطور میں صرف ایک دوا ساز کمپنی کی مثال بیان کی گئی ہے لیکن ملک میں اس وقت ایسےدرجنوں دوا ساز ادارے کام کررہے ہیں جن کی تیار کردہ ادویات بغیر ڈرگ لیبارٹریز سے چیکنگ کے مارکیٹ میں فروخت ہورہی ہیں۔ ان کی کھپت زیادہ تر دیہی علاقوں اور قصبات میںہوتی ہے۔ضلع بدین میںبھی ہر میڈیکل اسٹور اور میڈیکل سینٹر میں یہ دوائیں کھلے عام فروخت ہورہی ہیں ۔

باوثوق ذرائع کے مطابق ملک بھر میں 181 جعلی ادویات ایسی فروخت ہورہی ہیں جنہیںکسی باقاعدہ فارمولے کے تحت تیار نہیں کیا جاتا بلکہ ان کے استعمال سے مریضوں کوفائدہ پہنچنے کے بجائے مرض کی شدت میں اضافہ ہونے کے علاوہ نئے امراض جنم لیتے ہیں ۔ضلع تھرپارکرکے مختلف شہروں اور دور دراز قصبات میں سیکڑوں کی تعداد میں میڈیکل اسٹور ہیں جہاں جعلی کمپنیوںکی ضرررساںادویات فروخت ہوتی ہیں۔ ان ڈرگ کمپنیوں نے اپنی دواؤں کی فروخت بڑھانےکے لیے خطیرمعاوضے پر خواتین و حضرات کو بہ طور سیلز افسربھرتی کرنے کےعلاوہ میڈیکل سینٹرز اور طبی مراکز کے لیے بھی پرکشش مراعات ،تحائف اور پیکیجز متعارف کرائے ہیں۔ 

ان کمپنیوں کے اثرو رسوخ کی وجہ سے ڈرگ کنٹرول اتھارٹی کے حکام بھی ان کے خلاف کارروائی کرنے سےگریزاں ہیں ۔ ان کمپنیزنے بعض سرکاری و نجی طبی مراکز، ہیلتھ سینٹرزکے اندر اور ڈاکٹروں کے کلینکس کے ساتھ میڈیکل اسٹورز بھی قائم کردیئے ہیں، اور ڈاکٹروں کو ان دواؤں کی فروخت پر کمیشن بھی دیا جاتا ہے۔اس سلسلے میں روزنامہ جنگ کی جانب سےکئے گئے سروے کے دوران ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ ایک زمانے میں دونمبر کی اصطلاح رائج العام تھی ،لیکن ضلع تھر میںجو جعلی دوائیں فروخت ہوتی ہیں، انہیں’’ دس نمبری‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ 

بدین کے اکثر قصبات اور تحصیلوں میں میڈیکل اسٹورز پرنشہ آوانجکشن اور گولیاں کھلے عام فروخت ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میںمحکمہ صحت کےایک افسر نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ان جعلی اور نشہ آور ادویات کی فروخت روکنے کے لئے حکومت نے فارم 9 متعارف کرایا ہے جس کے تحت ہر قسم کی نشہ آور دواؤں کی فروخت پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ یہ ایک قسم کا حلف نامہ ہے، لیکن کمپنیوں کی جانب سے اس پر بھی عمل نہیں کیا جارہا ہے۔

تھرپارکرکی سماجی شخصیات کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ جعلی ادویات کی فروخت کو روکنا محکمہ صحت کی ذمہ داری ہے۔ ہر چھوٹے بڑے ضلع میں ڈرگ انسپکٹرزمقررہوتے ہیں، لیکن ڈرگ مافیا اور جعلی دوائیں بنانے والی کمپنیاں اس قدر طاقت ور ہیں کہ وفاقی وزارت صحت بھی ان کے سامنےبے بس ہوگئی ہے۔طبی ماہرین کے مطابق جعلی ادویات کے استعمال سے ملک کا ہر فرد بلڈ پریشر کامریض بن چکا ہے۔وزارت صحت کےایک ذمہ دار افسر نے بتایا کہ بازار میں فروخت ہونے والی سیکڑوں جعلی ادویات ان کی تجزیاتی رپورٹ کے بغیر پاس کردی جاتی ہیں۔ اس مذموم کاروبار کے خلاف چیف جسٹس آف پاکستان کو فوری طور سے سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایسی کمپنیوں اور ان کی مصنوعات کے خلاف کارروائی کا حکم صادرکرناچاہیے۔

تازہ ترین
تازہ ترین